44

قومی یکجہتی میں ہی بقا ہے!

قومی یکجہتی میں ہی بقا ہے!

پی ڈی ا یم اتحاد نے رجیم چینج آپریشن کے ذریعے وفاق میں اقتدار تو حاصل کرلیا ،لیکن معاشی معاملات درست سمت پر ڈالے جا سکے نہ ہی سیاسی میدان میں استحکام لایا جا سکاہے ، حکمران اتحاد کے سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں،عوام کا حکومت سے اعتماد اُٹھتا جارہا ہے، حکومت کی حالت جب ایسی ہو جائے کہ دوست اعتماد کرنا چھوڑ دیں اور غیر بھی نگاہیں پھیر لیں تو پھر لازمی طور پر اپنی ذاتی خواہشات اور انا کی قربانی دے کر عوام کی عدالت میں جانا ضروری ہو جاتا ہے،

لیکن حکمران اتحاداپنی ناقص کا گزاریاں ماننے کیلئے تیار ہیں نہ عوام کی عدالت میںجانا چاہتے ہیں،عوام کی عدالت میں جانے کا خوف ایک آسیب بن کر حکمراں اتحاد کے سروں پر ایسے سوار ہو چکا ہے کہ انتخابات سے فرار کی کوشش میں تمام جمہوری، آئینی اور دستوری روایات سے بھی انحراف کیا جا رہا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی پا رلیمان آج ساٹھ فیصد سے زائد عوامی نمائندگی سے محروم ہے،پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کی جا چکی ہیں،یہ آئینی تقاضا تھا کہ اسمبلیاں جوں ہی تحلیل کی گئیں تھیں،اس کے فوری بعد ہی دستور کے مطابق انتخابات کی تاریخ دے دی جاتی ،لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ جمہوری روایات کا پاس رکھا جا رہا ہے نہ ہی دستوری تقاضوں کو پورا کیا جارہا ہے ،

حکمران اتحاد قیادت ایک طرف انتخابات میں بھر پور شرکت کا عندیہ دیتی ہے تو دوسری جانب انتخابات کروانے سے گریزاں ہیں ، جبکہ تحریک انصاف قیادت نے انتخابات میں تاخیر پر جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے،اس جیل بھرو تحریک کے اعلان سے ملک میں سیاسی قوتوں کے مابین لڑائی میں مزیدشدت آسکتی ہے ، یہ لڑائی پھیل کر ریاست کے دیگر شراکت داروں کو بھی اپنی لپیٹ میںلے گی

جوکہ ریاست اور سیاست دونوں کے مفاد میں بہتر نہیں ہے۔ملک میں ایک طرف سیاسی عد استحکام بڑھتا جارہا ہے تو دوسری جانب معاشی بحران قابو سے باہر ہوتا جارہاہے ،حکمران اتحاد نے عوام پر مہنگائی ،بے روز گاری کا اتنا بوجھ ڈالا ہے کہ احتجاج کی سکت بھی باقی نہیں رہی ہے،ملک میں سفید پوش طبقہ تو بالکل ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے،غریب غریب تر ہوچکا ہے اور امیر، امیر ترین ہوتا جارہا ہے،

اس کے باوجود حکومت آئی ایم ایف کی مبینہ شرائط پرمن و عن عمل کرتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے بڑے طوفان میں دھکیل رہی ہے ، عوام پر تومزیدمہنگائی کا بوجھ در بوجھ ڈالا جارہا ہے جبکہ شہباز حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہیں،اس کی ترجیحات دیکھی جائیں تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے،جس حکومت کوڈالر کو قابو کرنا تھا، وہ شیخ رشید کو قابو کرنے میں مصروف ہے،جن حکمرانوں کو مہنگائی کو لگام ڈالنی تھی ،

وہ فواد چوہدری کو پابندِ سلاسل کرنے میں لگی ہے،جس حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں عوام کو ریلیف دینا تھا، وہ زمان پارک کے گرد گھیرا تنگ کرنے میںمصروف عمل دکھائی دیتی ہے ، عوام دشمن اقدامات کے باعث جہاںحکومت سے عوام کا اعتماد اُٹھا ہے ،وہیں اب عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو نے لگا ہے۔
اس وقت ملک جن آزمائشوں میں گرفتار ہے، اس کی ذمہ داری ستدانوں کے ساتھ ان مقتد قوتوں پر بھی عائد ہوتی ہے، جو کہ ان کی پشت پر رہی ہیں اوراس کی پوری قوم بھی ذمے دار ہے کہ وہ ایسے بدعنوان لوگوں کو بار بار منتخب کرتی رہی ہے کہ جنہوں نے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ،عوام قومی لٹیروں کے چہروں سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں ،اس کے باوجود ان کا احتساب کرپائے ہیں نہ نشان عبرت بناسکے ہیں ،عوام نے ہر بار ایک کے بعد دوسرے سے ُامید لگائی ہے کہ وہ عوام کا مسیحا بنے گا

،عوام کی داد رسی کرے گا ،عوام مخالف فیصلے کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گا ،مگر سب نے ہی عوام کو مایوسی کے سواکچھ نہیں دیا ہے ، عوام کل بھی وعدئوں اور دلاسوں کے سہارے حکمرانوں کی نااہلیوں کا بوجھ اُٹھاتے رہے ہیں ،عوام کو آج بھی سارا بوجھ اُٹھانے پر مجبور کیا جارہا ہے ، آخرعوام کب تک اکیلئے ساراوجھ اُٹھاتے رہیں گے ،حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ عوام کی ہمدردی کے زبانی کلامی دعوئے کرنے کے بجائے اس بار عملی طور پر خود بھی بوجھ اٹھائیں،

اگر تین بار اقتدار میں رہنے والے حکمران لوٹی ہوئی دولت کا کم سے کم پچاس فی صد بھی قوم کو واپس کردیں تو ملک درپش معاشی بحران سے با آسانی باہر نکل سکتا ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کو در پش بحرانوں سے نجات دلانے کیلئے سبھی کو اپنا محاسبہ کرنا ہو گا ،اپنے رویے کے ساتھ اپنے طرز عمل میں بھی تبدیلی لانا ہو گی ، عوام کو جہاں دیانتدار ،باصلاحیت کا انتخاب کرنا ہو گا ،وہیں سیاسی قیادت کو بھی جمہوری روایات کی پاسداری کرنا ہو گی، ہماراسیاسی نظام اور جمہوریت اس وجہ سے ہی کمزور رہی ہیں

کہ سیاسی جماعتیں مخالفین کو دبانے کے لئے عوام کی بجائے غیر جمہوری ہتھکنڈوں پر بھروسہ کرتی ہیں،بہتر ہو گا کہ حکومت انتشار اور اشتعال کو مزید پھیلنے سے روکے اور بحران سے نکلنے کے لئے آئین سے رجوع کرے،جمہوری قوتوں کی شناخت آئین پر کاربند رہنے سے مثبت رہتی ہے‘ آئین کو پس پشت ڈال دیا جائے تو بحرانوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، یہ وقت اختلافات بڑھانے کا ہے نہ سیاسی انتشار پھلانے کا ہے ، یہ وقت سیاسی وقومی یکجہتی پیدا کرنے کا ہے ،اس کیلئے سب کو سر جوڑ کر مل بیٹھناہو گا ،کیو نکہ قومی یکجہتی میں ہی سب کی بقاء ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں