60

اے موج ِ بلا ذرا ان کو بھی

اے موج ِ بلا ذرا ان کو بھی

جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی

ایک وقت تھا اپوزیشن ۔حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کرتی تو عوام میں ایک سننسنی اور برسر ِ اقتدار سیا ستدانوں میں سراسیمگی سی پھیل جاتی حکومت مخالف سیاسی رہنما جوڑ توڑ میں مصروف ہوتے تو کئی لوگوںکی نیندیں حرام ہونے میں دیر نہ لگتی ، تھڑے مارکہ ہوٹل،چائے کی دکانیں ،ہیرسیلون اوپن ائر حجام کے پھٹے بحث و مباحثہ کے مراکز سمجھے جاتے تھے جہاں لوگ اپنے پسندیدہ سیاستدانوںکے حق میں عجیب و غریب دلائل اور سیاسی مخالفین کیلئے نفرت کا بر ملا اظہار کرتے رہتے جلسے ،جلوس عوام کا لہو گرمانے میں پیش پیش تھے سیدھے سادھے لوگ اپنی رائے کا برملا اظہار کردیتے

اس دوران ہلکے پھلکے اندازمیں نوک جھونک بھی ہوتی معمولی لڑائی جھگڑے بھی ۔۔لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود سیانے فریقین کو سمجھاتے تو وہ تھوڑی دیر بعد ہی شیرو شکرہو جاتے آج کے دور کی طرح منافقت کم ۔۔کم تھی لوگوںمیں قوت ِ برداشت بھی۔۔۔سخت بات سن کر بھی مخالف کامسکراتا چہرہ دیکھ کردل محبت سے موم ہو جاتے اب تو معمولی معمولی باتوںپر اسلحہ نکل آتاہے چرڑ۔۔۔چرڑ ۔۔ٹھاہ۔۔ٹھاہ اور بات کیا بندہ ہی ختم۔۔۔پاکستان میں حکومت مخالف دو احتجاجی تحریکوں اور ایک دھرنے ۔۔۔نے بہت نام کمایا ایک خان عبدالقیوم خان نے صدر ایوب خان کے خلاف 15میل لمبا جلوس نکالا جس کاریکارڈ

۔ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔۔۔ اسے صدر ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کا نقطہ ٔ آغاز بھی کہا جا سکتاہے۔۔ دوسراذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک جسے تحریک نظام ِ مصطفیٰ ﷺ کا نام دیا گیا اس کے نتیجہ میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدارپرقبضہ کرلیا۔سابقہ صدر آصف علی زرداری کے دور ِ حکومت میں شیخ الالسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ کے سلوگن کے تحت اسلام آبادمیں ایک دھرنا دیا جس میں نو جوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی

۔شدید سردی،دھند اور بارش میں بھی ہزاروں افرادکا دلجمعی سے بیٹھے رہنا بلاشبہ پاکستانی تاریخ کا ایک ناقابل ِ فراموش باب ہے۔ ایک دھرنا مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دیا گیا جسے آزادی مارچ کا نام دیا گیا لیکن وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ آزادی کس سے مانگی جارہی تھی شاید عمران خان کی‘‘ ناجائز اور حرام‘‘ گورنمنٹ ان کا ہدف تھی جسے گرا کر مولانا نے ثواب کما لیا لیکن عوام کا کچھ بھلانہ ہوا کیونکہ عام آدمی کو آج تلک مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور مسائل سے آزادی نہیں ملی مزے کی بات یہ ہے

کہ آج حکومت چلتا کرنے کی خواہش والے ماضی میں ا یسی صورت ِ حال کے خلاف تھے اور آج ماضی کے حکمران دھرنا کی فیوض وبرکات کے حق میں دلیلیں دیتے دکھائی دیتے تھے۔ بہرحال ان تمام احتجاجی تحریکوں سے عوام کا تو کچھ فائدہ نہیں ہوا نتائج کے اعتبارسے یہ ناکام ہوگئیں ؁ٍ ویسے دیکھا جائے توپاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہر منظر نامہ میں اپوزیشن نے برسر اقتدار حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کی کوشش ضرور کی جب تک نوابزادہ نصراللہ خان حیات تھے

انہوںنے چھوٹی پارٹیوںکوبھی بڑی جماعتوں کے شانہ بشانہ احتجاجی سیاست کی رونق بنائے رکھا جس سے ان کے گلشن کا بھی کاروبار چلتارہااورانہیں نوآموز اورنومولود پرجوش کارکن میسرآتے رہے نوابزادہ نصراللہ خان کے بعد کسی اور کو یہ’’ ہنر‘‘نہ آیا بلکہ ان کے جانشین اپنے مرحوم والدکی سیاسی میراث کو ایک پارٹی میں مدغم کرکے سیاست سے ایسے’’ فارغ ‘‘ہوئے کہ اب کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں اور نصف صدی تک سیاسی تحریکوںکا مرکزو محورPDPکا دفتر آجکل لنڈا بازار بنا ہواہے یہ بھی ہو سکتا تھا

نوابزادہ کے لو احقین یہ جگہ خریدکر ان کے نام پر وقف کردیتے اور یوں ایک قومی وسیاسی یادگارکی حیثیت سے پہچانی جاتی۔۔۔دراصل اہلیت نہ ہوتو بہانے بہت سوجھتے ہیں۔۔۔بہرحال ملکی سیاست میں ایک طلاطم آنے کوہے جسے کئی لوگ پیالی میں طوفان سے تشبیہ دیتے ہیں تو کئی باسی کڑھی میں ابال قرارردے رہے ہیں جو کچھ بھی ہے اس سے ایک سال سے جمودکا شکار سیاست میں ہلچل کے آثار نظر آنے لگے ہیںجب سے الیکشن ہوئے ہیں عمران خان واحد سیاستدان تھے جنہوںنے میاں نوازشریف سے ’’ آڈھا‘‘ لگا رکھا تھا دوسرے فرزند ِ راولپنڈی شیخ رشید کا دم غنیمت ہے

جنہوںنے ہمیشہ اس حکومت کو آڑے ترچھے ہاتھوں لیابہرحال اب میاں نوازشریف کی حکومت کے خلاف مخالفین آہستہ آہستہ اکھٹاہونا شروع ہوگئے ہیں گذشتہ دنوں شیخ الالسلام پروفیسر طاہرالقادری کی میزبانی میں لندن میں چوہدری برادران اور دیگر رہنمائوںنے گرینڈ الائنس بنانے پراتفاق کرلیا شنیدہے اس میں تحریک ِ انصاف، عوامی مسلم لیگ، ایم کیو ایم ،جماعت اسلامی کو بھی شمولیت کی دعوت دیدی گئی ہے

کچھ مذہبی جماعتوں نے بھی طاہرالقادری کی حمایت کااعلان کردیاہے جو ایک دوسرے کی بیساکھیاں استعمال کرکے ’’پیالی میں طوفان‘‘ لانے کے متمنی ہیں عمران خان اور پروفیسر طاہرالقادری کے علاوہ کسی کے پاس سٹریٹ پاور نہیں عمران خان پارلیمنٹ کے اندر، پروفیسر طاہرالقادری پارلیمنٹ کے باہرہیں اس لئے ان کی ترجیحات اور سیاسی معاملات جدا جداہیں جو گرینڈ الائنس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیںاس میں کوئی شک نہیں

سیاسی بے چینی ، مہنگائی،بیروزگاری ،لوڈشیڈنگ اورعروج پر ہے اس کے باوجود سیاسی ماحول گرم ہونے کی کوئی امید تونظرنہیں آرہی تھی لیکن اب خودحکومت نے پکڑ دھکڑ،چیخ و پکار،بغاوت کے مقدمہ، منہاج القرآن سیکرٹریٹ کا محاصرہ، تحریک ِ انصاف کے کارکنوںکی اندھا دھند گرفتازیاں کرکے ماح اقدامات لوگوںکے پاس کھانے کو روٹی نہیں، روزگارنہیں،بجلی نہیں حالات نے غریبوںکو ادھ مواء کرکے رکھ دیاہے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کیونکر کامیابی سے ہم کنارہوگی یہ تو وہی بات ہونی نا
تجھے اٹھکیلیاں سوجھتی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیںب ماضی میں چلنے والی حکومت مخالف تحریکیں نتائج کے اعتبارسے یہ ناکام ہوگئیں کہ عوام کو کسی بھی لحاظ سے ریلیف نہیں ملا صرف یہ ہوا ایک حکمران گیا اس کی جگہ نیا آگیا نظام تبدیل ہوا نہ عوام کے حالات اور نہ ہی سسٹم میں کوئی بہتری ہی آسکی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ساتھ میاںنوازشریف اور سابق صدر زرداری بھی کہنے لگے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی اسی لئے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کا خطاب دیا تھا لیکن اب میاںشہبازشریف وزیرِ اعظم بن کر بھی کبھی سوچ کر بولتے ہیں پھربولتے بولتے خاموش ہوجاتے ہیں

شایدان کی یہ سوچ ہو کہ میں کس مصیبت میں پھنس گیاہوں معیشت کا برا حال ہے مہنگائی اور ٹیکسزکی بھرمار سے سے عوام بدحال ہوچکے ہیں عام انتخابات ہوگئے تو ہمارا کیا بنے گا ؟ عمران خان کے حامی تو ہمیں پہلے ہی امپورٹڈ وزیر اعظم کہہ کہہ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کررہے ہیں شیخ رشیدکا تو ہمیشہ سے یہ کہناہے کہ میاںشہبازشریف وکٹ کی دونوں جانب کھیلتے ہیں اسی لئے ان کی کسی بات پر اعتبارنہیں کیا جاسکتا بہرحال عمران خان کی صورت میں اپوزیشن ایک کے بعد ایک ملکی سیاست میں ایک طلاطم لانے کی کوشش کررہی ہے

۔ ایک سیاسی بزرجمہرکا کہناہے مولانا فضل الرحمن ہمیشہ استعمال ہو تے ہیں جب سے وہ اقتدار سے باہرہوئے ہیں ان کی باسی کڑھی میں باربار ابال آتاہے وہ بھی مایوس اور نامرادہو نے کے باوجود اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیارنہیں ہیں کیونکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوںنے ہمیشہ اقتدار کو انجوائے کیا ہے اب اپوزیشن کامزہ چکھا ہے تو ان کی چیخیں نکل رہی ہیں کسی کو اسلام یادآگیاہے کوئی اسلام آباد اسلام آبادپکاررہاہے اقتدرکے ساحل پر موجوںکا نظار ہ کر نے والوں کیلئے ضروری نہیں کہ ہر وقت ان کی چاروں گھی میں رہیں
استاد قمر جلالوی نے شاید ایسے موقعہ کیلئے ہی کہا تھا
اے موج ِ بلا ذرا ان کو بھی دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل پہ موجوں کا نظارہ کرتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں