36

ذرا ہوش کے ناخن لو!

ذرا ہوش کے ناخن لو!

تحریر : طاہر محمود آسی

میرا ملک پاکستان بڑا عظیم ہے اس کی عظمتوں کو ہم سب سلام پیش کرتے ہیں مگر یہ مملکت خداداد اب بدترین معاشی اور ساتھ ساتھ سیاسی حالات کا بھی شکار ہے- سیاسی بیان بازی سے بات بہت آگے نکل چکی ہے، انتقام کی سیاست کا آغاز ہوچکا ہے- سیاسی گولاباری کے علاوہ اب حقیقی گولاباری بھی نظر آنے لگی ہے حکومتی دائرہ کار کے اندر اور باہر سے معاشی ناکامیوں کی صدائیں بلند ہوتی نظر آ رہی ہیں

بھوک افلاس اور ننگ مجھے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کے جا رہی ہے عدالتوں کی بات کی جائے تو ان پر سیاسی جماعتوں کے صدر معاملات میں اس دیا ہے کہ جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی نہایت پریشان کن صورتحال کا شکار نظر آ رہے ہیں- ہر طرف بدامنی پھیلی ہوئی ہے- متوسط طبقات کے لوگ اس بدامنی کی وجہ سے کافی حد تک پس چکے ہیں، پاکستان وفاق کی مختلف صوبوں سے لڑائی اور رسہ کشی جاری ہے اور اس لڑائی اور جنگ کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں

وطن عزیز سے بے لوث محبت کرنے والوں کی کمی ہوتی جارہی ہے وفاق اور صوبوں کی لڑائی میں معیشت کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے- غربت کے مارے لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں عزت بچانے کے لئے جو غریب کرنا چاہتا ہے وہ بالکل اس کی طاقت اور استطاعت سے باہر ہو چکا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل نواز شریف کے پاس ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ عمران خان کے علاوہ اس ملک کو کوئی درست نہیں کر سکتا ہے

اور عمران خان کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نوجوان قیادت کے روپ میں سامنے آ کر آپ کا تعلق اس ملک کے غریب و کسان مزدور اور دیگر طبقہ کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں-اب ذرا سوچیے تو ہم غریبوں نے ملکی وسائل کو لوٹا ہے کہ ہم سزا بھگت رہے ہیں- کیا ہمارے کسانوں نے ملک کے ساتھ ہاتھ کیا ہے کہ کسان بدحالی کا شکار ہے، کیا اس ملک کے مزدوروں نے ملکی وسائل کوڈ کیا ہے کہ مزدور کسمپرسی کا شکار ہیں؟ کیا طالب علموں نے ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا ہے

کہ آج اس کے لیے علم و ترقی کے دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں؟ آخر کوئی تو ہے جس کا کیا دھرا ہمیں پوری دنیا میں ذلیل و خوار کر رہا ہے- ہم بھیک مانگنے کے لیے مجبور ہو گئے ہیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی ہمیں طرح طرح سے مجبور اور لاچار کر کے اور کڑی سے کڑی شرائط منوا کر قرض دے رہا ہے یوں سمجھ لیجئے کہ قرض دینے والے اداروں کے سامنے ہم کان پکڑ چکے ہیں جس طرح ایک استاد سبق سکھانے کے لیے کسی طالب علم کو اپنی کلاس میں کان پکڑوا دیتا ہے-

معزز قارئین کرام! پاکستان کی موجودہ سیاست دن بدن نہایت پیچیدگی اور انتقامی صورت کی طرف مائل ہوتی نظر آ رہی ہے- جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے کسی کو پاک فوج کے خلاف بات کرنے کی ضرورت نہیں کرتے دیکھا اور نہ ہی سنا ہے لیکن اب دیکھ بھی لیا ہے اور سن بھی لیا ہے- ملک پاکستان کے خلاف بات کرتے ہوئے

کوئی شرمساری محسوس نہیں ہو رہی ہے، یوٹیوب کے کئی چینلز نے تو پاکستان سیاست اور پاکستان کو خاص خراب کر رکھا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ ہم دنیا عالم میں بہت بڑے بےعزتی اور بے غیرت بن چکے ہیں بدنامیوں اور ناکامیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس میں کمی آنے کے آثار دور دور تک بالکل بھی نظر نہیں آرہے ہیں- سب سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو چور کہہ رہی ہیں یہاں تک کہ مسجد نبوی میں بھی چور کی صدائیں بلند ہوتی ہر ذی شعور سن چکا ہے- ہر طرف سیاسی جلسے ہو رہے ہیں

جیسے یہ ملک جلسہ جلسہ کرنے کے لیے پہلوانوں کی طرح بنایا گیا ہے- کیا قائد اعظم محمد علی جناح نے جلسہ جلسہ کھیلنے کے لیے پاکستان بنایا تھا؟ مہنگائی قوت برداشت سے باہر ہو چکی ہے مگر سیاسی مقدمات پر کروڑوں اربوں خرچ کئے جارہے ہیں- سرکاری ملازمین اور مزدوروں کے لیے بجٹ نہیں ہے مگر پروٹوکول پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں- ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے ادویات نہیں ہے مگر بڑا اشرفیہ دکھاوے کے لیے مختلف طریقے سے قومی خزانے کو گھر کی لونڈی کی طرح استعمال کرتا ہوا نظر آ رہا ہے

ہر طرف دار غدار کہا جا رہا ہے اگر کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کر رہا ہے- دھکم پیل، دھینگا مشتی اور ہٹ دھرمی کے اس دور میں ایک شریف النفس انسان کے لئے زندہ رہنا بہت مشکل ہو چکا ہے- مزدوروں اور سرکاری ملازمین کے لیے مختلف اعلانات کرنے والو! عمل کس نے کروانا ہے؟ جو یہاں بولے گا اس کا اگلے دن گیٹ بند ہو جاتا ہے- دودھ کی نہریں بہانے والوں پاکستان کی ” پ ” بھی آپ کے قول و فعل سے معافی مانگ رہی ہے- قانون ساز اداروں میں گالم گلوچ اب معمول بن چکا ہے

قانون کا احترام کرنے اور کروانے والے خود اس کی دھجیاں بکھیرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں- انصاف کرنے والے اور مانگنے والے بھی مایوسیوں کی جنت میں بس رہے ہیں- عزتیں لوٹ رہی ہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے- تحفظ فراہم کرنے والے خود عدم تحفظ کا شکار ہوچکے ہیں ہر سطح پر جس سے جتنی اور جس قدر بدمعاشی ہوتی ہے کیا جا رہا ہے، کسی کو کسی کا خوف نہیں ہے جو کہے گا وہ مرے گا اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلے گا-

معزز قارئین! پی ٹی آئی اور پی ڈیم کی لڑائی سے ہمیں کیا واسطہ ہے، شہباز گل اگر صعوبتیں برداشت کر رہا ہے تو اسے غریب اور پریشان حال لوگوں کو کیا واسطہ- ملک کے خلاف فوج کے خلاف بات کرنا وطن سے محبت کرنے والوں کا شیوہ نہیں ہے- ہر روز قربانیاں دینے والوں کو عزت و احترام ملنا چاہیے- یہاں ہر کسی کا اپنا نظریہ ہے اور کسی کا اپنا پاکستان ہے، کچھ کا پرانا پاکستان ہے اور کچھ کا نیا پاکستان ہے

– چلے جیسے بھی ہے پاکستان سے پیار تو کریں، صرف فوٹو سیشن سے زہر محبت کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں عملا بھی کچھ ہونا چاہیے- عوام مہنگائی اور بدامنی سے نجات چاہتے ہیں لیکن سیاسی وڈیروں کی لڑائیاں غریبوں کے گھروں کے چولہے کو ٹھنڈا کر رہی ہیں- وفاق اور صوبوں کی لڑائی ملک کی معیشت کو تہہ و بالا کر رہی ہے، عمران اور شریفوں کی لڑائی ملک پاکستان کوبدنام کر رہی ہے، سیاستدانوں کا فیصلہ سنانا انصاف کو محکوم کر رہا ہے- معیشت میں ہم سے کمزور ممالک ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں

شاید کہ ان میں احساس ذمہ داری کا عنصر موجود ہے- شاید کہ ان میں اپنے وطن سے محبت کا احساس موجود ہے، شاید کہ ان میں عوام کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ موجود ہے- آج ہماری حکمران پارٹیاں ایک دوسرے کے قائدین کی پکڑ دھکڑ میں مصروف نظر آ رہی ہیں اور بڑھ چڑھ کر بیان بازی میں مصروف ہیں، خدارا ہوش کے ناخن لو۔تم نے کبھی مزدور کا گیٹ بند کرنے والوں کو پکڑا ہے؟ ہسپتالوں کے مافیاز کو پکڑ کر دکھاؤ اور ذخیرہ اندوزی سے غریبوں پر ظلم ڈھانے والوں کو کبھی پکڑ کر دکھاؤ، غریبوں کی بیٹیوں کی عزتوں سے کھیلنے والوں کو کبھی پکڑا ہے تم نے؟ قاتلوں کو کون پکڑے گا؟

مافیاز کے سرپرستوں کو کون پکڑے گا؟ کورٹ کچہری میں مختلف قسم کے ستمگروں پر کون ہاتھ ڈالے گا؟ لوٹو اور لٹیروں کو پکڑو تو کوئی بات بھی ہو اور ملکی وسائل کی حرکتیں کرنے والوں کو پکڑو تو پھر بات بھی ہے- نظام خراب کرنے والوں پر شکنجہ کسنے کی انتہائی ضرورت ہے- جس کے گلے میں پھندا پورا کیا جائے اسے پھانسی چڑھا دو یہ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے- برے کو نہیں برے کی ماں کو مارو تا کہ برای جڑ سے ختم ہو

– اھلِ اقتدار سے التماس ہے کہ اپنے ذاتی الجھاو سے نکل کر عوامی خدمت کا بھی کچھ سوچ لو – پرائے مال پہ موجیں اڑانی اچھی نہیں ہوتیں- سرکاری خزانے کو امانت سمجھ کر استعمال کرو گے تو عزت پاو گے ورنہ تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں- ہمیں کسی پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم سے کوئی واسطہ نہیں ہے

بس ملک پاکستان کے لیے اگر وفا کا جذبہ آپ کے من میں موجود نہیں ہے تو جہنم میں جاؤ، ہمیں تو وطن کی محبت عزیز ہے- وڈیروں کی پکڑ دھکڑ سے غریبوں کی زندگی میں کیا آسودگی ہو سکتی ہے ان کے تو گھر چلتے ہیں- سیاسی لڑائیاں بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہیں غوروفکر لازم ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں