حاجی محمد اقبال کی یاد میں
حاجی محمد اقبال کی یاد میں
(ریٹائرڈ آفیسر پاکستان ائیر فورس)
تحریر: جاوید طارق
جسکی ادا ادا پہ ہوانسانیت کو ناز
مل جائے کاش ایسابشر ڈھونڈھتے ھیں ہم
عاجز ماتوی
تجربے سے علم ہوا کہ اپنے کسی بے حد قریبی دوست وبزورگ یارشتہ دار پر لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے کیان کی یادوں،باتوں کا ٹھاٹھیں مارتا ایک سمندر سامنے موجود ہوتا ہے کن کن موجوں کوسمیٹوں اور کسے نظرانداز کروں اور اسے موقع پریوں بھی لکھنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ لکھتے وقت ایک جزباتی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو قلم کوروک لیتی ہے تاہم ان ملی جلی کیفیات کے ساتھ حاجی محمد اقبال صاحب(اکالگڑھ)کی یادوں کو سمیٹنے کی ایک ادنی سی کوشش کررہاہوں
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
کیاگزرے ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک
حاجی محمداقبال (جائے پیدائش ڈھیری پرانا اکالگڑھ) صاحب میرے لیے انتہائی شفیق تھے ان کی شفقت جب اسلام گڑھ رہا قائم رہی اور جب میں برطانیہ اگیاتب بھی ان کی شفقت برقرار رہی اور میں اپنے طور پرکوشش کرتارہا کے ان سے رابطے میں رہوں اور ان سے مستفید ہو تا رہوں۔
جب بھی ان کے پاس گیا
وہ جی بھر کے باتیں کرتے،کچھ ہنسی مذاق اور تفریحی کی،کچھ حالات حاضرہ پر اور بہت سی لکھنے پڑھنے کی باتیں ہوتیں -ان کو ادب و بہر اور تعلیمی میدان میں کوشش کرنے والیوالے نوجوان بہت پسند تھیاور میری خوش قسمتی تھی کہ میراتعلق بھی ایسے ہی گھرانے سے تھااور حاجی صاحب ہمارے پورے خاندان کواچھی طرح جانتے تھے اس لیے مجھے ان کے ساتھ تعلق بنانے میں زیادہ دیرنہیں لگی
– فوج میں ملازمت اور قریبی دوست ہونے کی وجہ سے میرے داداجان حاجی محمدیوسف (اوچھی لس)ان کیشب وروزسے اچھی طرح واقف تھے۔میری ان سے پہلی ملاقت ان کی مشہور زمانہ دوکان جو کہ پلائی موڑ پر تھی، جہاں وہ ڈیزل،پیٹرول،مٹی کا تیل فروخت کرتے تھے ہوئی اور پھر ہر دفعہ کی ملاقات کا دورانیہ بڑھتا ہی چلاگیا۔
ان ملاقاتوں کی خاص بات ان کا انگریزی زبان سے شغف تھااور ان کواس پرکمال عبور حاصل تھا انگریزی زبان پر ان کی دسترس اور ادائیگی نے مجھے مجبور کیا کہ ذیادہ وقت گزارنے سے کچھ نا کچھ ضرورحاصل ہو گا۔
میں جب بھی برطانیہ سے واپس لوٹا اور ملاقات کے لیے گیاہمیشہ ہر حال میں وہ ایک جیسی محبت اور پیار سے نوازتے؛بلکہ حد سے بڑھی ہوئی ان کی شفقت سے کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ حاجی صاحب پہلے ہی سے ہمارے انتظار میں بیٹھے ہیں۔سلام کرنے اور خیریت دریافت کرنے میں بھی زیادہ تر وہ خود پہل کرتے۔ مجھے چائے کو دعوت سے لے کر شام کے پرتکلف کھانے تک کئی دفعہ انھوں نے اپنے گھر مدعو کیا
اور گھنٹوں علاقائی اور بیرونی موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔اسی طرح کی ایک ملاقات کا اہتمام انھوں نے میری خواہش پر دسمبر 2016 میں بھی کیا جہاں تقریبا دو گھنٹے کی نشست ہوی اور موضوع صرف اور صرف ان کی پروفیشنل لائف تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ انھوں نے کم ہی لوگوں سے اس کے بارے میں ذکر کیا ہے اس لیے میں وہ معلومات اپنے اور باقی دوستوں کے لیے محفوظ کرنا چاہتا تھا۔
اس تحریر کے ساتھ جو تصاویر میں نے لی تھیں وہ لف ہیں۔ گو کہ ان سب واقعات کی تفصیل ایک تحریر میں لکھنا ممکن نہیں پر شروعات سے لے کر کس طرح ان کی سلیکشن ہوئی اور سعودی عرب میں گزارا ہوا ان کا عرصہ اور ان کی اچیو منٹس کو مانا گیا، ان کو دیے گئے اعزازات، انعامات اور میڈل سب انھوں نے ایک ایک کر کے دکھائے۔انھوں نے 34 سال پاکستان ائیر فورس میں گزارے۔اور 1984 میں ریٹائر ہو کر گھر واپس ائے۔
میں یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں حاجی محمد اقبال صاحب کا ایک خاص امتیاز ان کی قوتِ حافظہ تھا۔ لگتا ایسا ہی ہے جیسے حافظہ و ذہانت ان کا موروثی سرمایہ تھا، اس نعمت کا مشاہدہ ان کے تینوں بیٹوں شاہد اقبال، زاہد اقبال، اور طاہر اقبال میں دیکھا جا سکتا ہے حاجی صاحب کے تینوں بیٹے ما شا اللہ متقی ذہین و ذکی ہیں الحمد للہ۔
کیونکہ جنگ و جدل کے حالات واقعات کا جو سلسلہ اور فوٹو گرافک میموری کے ساتھ جو نقشہ وہ کھینچتے تھے اتنی عمر میں اس تفصیل کا یاد ہونا ایک نعمت سے کم نہیں۔ان میں تجربے کی بنیاد پر بیان کی گئی کافی چیزیں ایسی تھں جو شاید ہمیں کو کتابوں میں نہ ملیں۔
میرے خیال میں تین بنیادی اجزائپر ان کی شخصیت ڈھلی تھی۔ اعلیٰ اخلاق، فیاضی اور خود فراموشی کی حد تک سادگی۔میرے نزدیک کسی بھی عظیم انسان کے لیے یہ وہ اجلے اوصاف ہیں جودوسری بہت سی خوبیوں پر بھاری ہیں۔ایک شخص علم و ادب اور فضل و کمال کے ساتویں آسمان پر بھی پہنچ جائے لیکن اخلاق اور عاجزی جیسی خوبیوں سے وہ محروم ہے جسموں پر وہ حکومت کرسکتا ہے؛
۔ یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کروں کہ ان تدریس کے پہلوست کافی لوگ شاید واقف نہ ہوں۔ لیکن ایک چھوٹے سے واقعے کا حوالہ دیتا چلوں جس سے اپ کو اندازہ ہو جائے گا ان کا تدریس کا شوق اور ہمدردی کس قدر غالب تھی ان کی شخصیت پر۔ ایک دفعہ ایک دوست نے جو ان کی دکان پر بیٹھا تھا، اپنی پریشانی کا ذکر کیا کہ بیٹا انگریزی زبان کے مضمون میں ذرا کمزور ہے تو انھوں نے فوراً حامی بھر لی کے میں اسے انگریزی سیکھا وں گا اس کو میری دکان پر بھیج دیا کرو۔ اور سچی بات یہ کہ اج وہ لڑکا خود برطانیہ پہنچ چکا ہے
اور انگریزی اس کی زبان ہے اور دل سے دعا دیتے ہوے اس بات کا ذکر اس نے خود تعزیت کے لیے ائے ہوے بھائیوں کے ساتھ کیا۔انگریزی زبان سے ان کا عشق بھی دیدنی تھا۔ انھوں نے بغیر کسی غرض و مقصدکے بے لوث انگریزی زبان کی تدریس کی- جب بولنا شروع کرتے تو بس وہ بولتے چلے جاتے،نہ اٹک نہ پھٹک، نہ تکلف نہ تصنع،بس ایک آبشار ہے جو بہتا چلا جارہا ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو اپنے مضمون پر مکمل عبور حاصل ہو اور ویسی تقریر بھی آبشاری ہو۔
حاجی صاحب کا ایک امتیاز ان کی سادگی تھی،
اس حد تک وہ سادہ مزاج و سادہ لباس تھے۔معمولی لباس اور اکثر سفید رنگ کے کپڑے، ٹوپی اور کندھے پر سفید چادر زیب تن کیے ہوئے حاجی محمد اقبال صاحب بلا تکلف کہیں بھی پیدل چلے جاتے اور خاص کر جمعہ کے دن -جب شوگر کا عارضہ لاحق ہوا اور ایک ٹانگ نہ رہی تو اپنے پوتے انسب شاھد یا بیٹے شاھد اقبال کے ساتھ موٹر سائیکل کا استعمال کرنے لگے۔ نماز کی پابندی صحت اور بیماری دونوں صورتوں میں ایک اٹل کام تھا
میں نے اپنی زندگی میں کم ہی ایسے شکر گزار بندے دیکھے ہیں۔ ان کے دولت کدہ پہ راقم کی برابر حاضری ہوتی رہتی تھی، ان کی رہائش، ان کے رفتار و گفتار، نشست و برخاست،ان کی بات چیت ہر ایک سے ان کی سادگی نمایاں تھی۔گو کہ ان کے ساتھ بیتے وقت میں کافی واقعات ذہن نشین ہیں میں اخری بات کے ساتھ اختتام کی جانب بڑھتا ہوں۔
اولاد کا صالح ہونا اپنے آپ میں ایک عظیم نعمت ہے اور یہ نعمت ہر کسی کواولاد کا صالح ہونا اپنے آپ میں ایک عظیم نعمت ہے اور یہ نعمت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ آج اولاد کے اندر بھی مادیت کا ایسا زہر بھر گیا ہے کہ والدین کے حقوق کو بھی روپے پیسوں میں تولتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ کا حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوسکتا۔ایسے پر آشوب حالات میں بچوں کا فرماںبر دار ہونا کھلی کرامت کی بات ہے
اللہ ان کی قبر کی منزلیں اسان فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے اور ان کی نصیتوں پر عمل کرنے کی طاقت اور موقع دے اپ سب لوگو ں سے بھی حاجی صا حب کے لیے دعا کی اپیل کرتا ہوں۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے