اتحاد و اتفاق میں ہی برکت ہے !
ملک میں جاری سیاسی تماشے کو ایک سال ہونے کو ہے ،لیکن یہ تماشا ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا ہے ،اس کی وجہ سے ایک طرف سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے تو دوسری جانب معیشت تباہ ہو کررہ گئی ہے ،اس صورتحال سے نکلنے کا وحد حل عام انتخابات کا انعقاد ہے ،مگر حکمران اتحاد انتخابات کرانے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،یہ انتخابات کرانے نہ کرانے کی سیاسی جنگ ایوان سے نکل کر عدالت عظمیٰ میں جا پہنچی ہے
،اس کا فیصلہ کیا ہو گا اور کس کے حق میں آئے گا اور کیا اس کے بعدحالات بہتر ہو جائیں گے ؟یہ تو آنے والا وقت ہی بتا ئے گا ،تاہم اس دوران سیاسی انتشار بے قابو ہوتا چلاجارہا ہے ،یہ ابتر ہوتے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے سارے الجھے معاملات سلجھائے جائیں،مگر ہماری سیاسی قیادت کے نزدیک قومی مفاد سے زیادہ ذاتی مفادات ہی عزیز دکھائی دیے رہے ہیں ۔
یہ امر واضح ہے کہ ملک ایک ایسے نازک دوراہے پر کھڑا ہے کہ جہاں سیاسی قیادت کی ایک غلطی بھی تباہی کے گھڑے میں دھکیل دیے گی ، اہل ِ سیاست کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ابتر ہوتے حالات کا ادارک کرنا ہو گا ، اگرسیاسی قیادت بند گلی سے یو ٹرن لے کر واپس آ جائیں تو ملک و قوم کا بہت حد تک بھلا ہونے کا امکان ہے، کچھ اور نہیں تو کم از کم سیاسی درجہ حرارت میں ہی تھوڑی بہت کمی توآ ہی جائے گی
،جو کہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے ماحول سازگار بنا سکتی ہے،ملک میں مسائل کے انبار کھڑے ہیں، لیکن سیاسی قیادت کی حالت یہ ہے کہ ایک جگہ بیٹھ کر گفتگو کرنا تو درکنار ایک دوسرے کو دیکھنے کیلئے بھی تیار نظر نہیں آتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسے میں قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنا کیسے ممکن ہو گا؟ ملکی معاملات چلانے کے لئے حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو ہی اپنا آئینی کردار ادا کرنا پڑتا ہے،
اِس وقت ایک طرف سیاسی و معاشی بحران ہے تو دوسری جانب دہشت گردی ایک بارپھر سر اٹھا رہی ہے، وزیر اعظم سارے بحرانوں پر قابو پانے کے دعوئے تو کررہے ہیں ،مگر اس صورتحال میں تمام سٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کوششوں کے بغیرقابو پانا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے، تاہم ہمارے اہل ِ سیاست ملک و قوم کی بھلائی کے لئے متحد ہونے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں ،اگر یہ روش ایسے ہی جارہی اور خدانخواستہ قومی اتفاق رائے پیدا نہ کیا جا سکا تو پھر سب ہی کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا۔
اس وقت قومی اتفاق رائے وقت کی اہم ضرورت ہے ،یہ حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک قدم آگے بڑھائے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے ،گزشتہ دنوں وزیراعظم نے ساری سیاسی جماعتوں کے قائدین کو آل پارتیز کا نفرنس کی دعوت دی تھی ،اس میں تحریک انصاف نے پہلے شامل نہ ہونے کا اعلان کیا
،لیکن بعدازاں شرکت کو باضابطہ دعوت سے مشروط کر دیا گیا تھا ،اس پر حکومت کی جانب سے خاموشی طاری رہی ہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران اتحاد کے ساتھ اپوزیشن بھی ملکی مفاد کیلئے کتنی یکسو اور مخلص ہیں ،دونوں ہی زبانی کلامی قومی مفاد کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،مگر عملی طور پر کوئی ایک بھی قومی مفاد کے پیش نظر افہام تفہیم کے ساتھ مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ۔
اس آئے روز کی بڑھتی سیاسی محاذ آرائی کے باعث ملک و عوام کی مشکلات میں بتد ریج اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ، اس کا ادراک حکومت کررہی ہے نہ اپوزیشن کو ہی احساس ہے ،اپوزیشن آئے روز نت نئے شگوفے چھوڑے جارہی ہے اور حکومت اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات بنائے جارہی ہے ، اس ملک میںسیاسی انتقام کا نشانہ بنانا پرانی روایت رہی ہے ،اس روایت کو جان بوجھ کر دویرایا جاتا ہے ،اس بار بھی وہی روایت دہرائی جارہی ہے
،اس سے فاصلے کم ہو نے کے بجائے بڑھ رہے ہیں ،حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انتقامی سیاست کے بجائے افہاو تفہیم کی سیاست کو فروغ دیے اور نیک نیتی کے ساتھ پی ٹی آئی کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھائے ،پی ٹی آئی قیادت پر بھی لازم ہے کہ ذاتی اَنا کو قومی مفاد کیلئے پس پشت ڈال دیے ،کیو نکہ اتحاد و اتفاق میں ہی برکت ہے ،اس اتحادو اتفاق سے ہی جہاںسیاسی و معاشی بحران کا ھل تلاش کرنے میں مدد ملے گی ،وہیں عوام کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی بھی ہو سکے گی ،بصورت دیگرسب کچھ ہی ہاتھ سے نکلتا صاف دیکھائی دیے رہا ہے