خطہ ٔ پنجاب تاریخ کے آئینہ میں
جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی
پانچ دریائوںکی سرمین خطہ ٔ پنجاب کے تہذیب و تمدن کا برِ صغیرپاک وبنگلہ ہند پر گہرے سیاسی ،سماجی،معاشرتی،معاشی اورلسانی اثرات کی آج تک گہری چھاپ ہے یہ خطہ انتہائی ذرخیزہونے کے بعد بیرونی جارحیت کا ہمیشہ محوررہاہے جس بادشاہ نے اس علاقہ کوفتح کیا اس نے مقامی آبادی پر بہت ظلم و تشدد کیا پنجاب انسانی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا نہایت ہی قدیم خطہ ہے۔ لفظ پنجاب علاقے کے نام کے طور پر مسلمانوں کی آمد کے بعد رائج ہوا۔ یہاں پر لاکھوں سال پہلے قدیم پتھر کے زمانے کا انسان آباد تھا جو جنگلی زندگی بسر کرتا تھا
اور پتھر کے اوزاروں سے شکار کھیلتا تھا۔ پنجاب میں تاریخی دور کا آغاز آریائوں کی آمد کے بعد سے ہوا۔ انہوں نے پنجاب میں قیام کے دوران کتاب رگ وید تصنیف کی۔ اس میں پنجاب کو سپت سندھو لکھا گیا ہے۔ سپت کے معنی سات اور سندھو کے معنی دریا کے ہیں۔ ان سات دریائوں میں سے پانچ کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ چھٹے اور ساتویں دریا کے بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ بعض کے خیال میں باقی دو دریا، دریائے سندھ اور سرسوتی ہیں جبکہ کچھ دریائے کابل اور دریائے جیحوں کو بھی شامل کرتے ہیں
بہلیک یا وہیک پنجاب کا ایک قدیم قبیلہ تھا۔ قبیلوں کے اعتبار سے پنجاب کے بعض مخصوص خطوںکا نام مدر دیس، مدر قبیلہ کی نسبت سے بھی رہا۔ کورووں اور پانڈوں کی لڑائیوں کے زمرے میں پنجاب کا نام پنجال میں بھی ملتا ہے۔ یونانیوں کے عہد میں اس کو پنیٹا پوٹامیہ بھی کہا جاتا رہا یعنی پانچ دریائوں کی سرزمین۔ اس کے بعد اسے ٹکی دیس کہا جاتا رہا۔ مشہور چینی سیاح ہیون سانگ کی ساتویں صدی عیسوی میںہندوستان آمد کے وقت پنجاب کا یہی نام رائج تھا۔ بعض سنسکرتی ماخذوں میں پنجاب کے لیے پنج امبو کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ پنج امبو کے معنی بھی پانچ پانیوں کی سرزمین ہیں۔ مغل بادشاہ اکبر کے عہد میں پہلی بار اس سرزمین کو پنجاب کے نام سے موسوم کیا گیا۔
منگول، مغل اور عربی شامل ہیں۔ وہ یہاں کا رہن سہن سیکھ گئے۔ پنجاب میں تہذیب و تمدن کا تنوع ان ہی لوگوں کی وجہ سے ہے۔ پنجاب کی سواں تہذیب، دنیا کی قدیم ترین تہذیب خیال کی جاتی ہے۔ وادی سواں کے اردگرد کے علاقوں میں انسان کثیر تعداد میں رہتے تھے۔ان کے زیر استعمال پتھر کے اوزار جگہ جگہ ملے ہیں۔
دریائے سواں دریائے سندھ کا معاون دریا ہے اور راولپنڈی کے قریب بہتا ہے۔ وادی سواں راولپنڈی ، اٹک ، جہلم، ہزارہ، سرگودھا اور خوشاب کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ سواں صنعت کے پتھریلے اوزاروں میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر ٹوکا ہے۔ اس قسم کے اوزار دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ملے۔ رفتہ رفتہ سواں کی صنعت بھی تبدیل ہوتی گئی۔ پہلے یہ لوگ غاروں رہتے تھے، گھاس پھوس اور شاید تنکوںکے خیمے بھی بنائے۔ جانوروں کا شکار کرنے کے بعد ان کی کھالیں لباس کے طور پر استعمال کرتے تھے اور خوراک کا انحصار قدرت پر تھا یعنی نباتات اور حیوانات ہی ان کی خوراک تھی
اس دور میں شہری معاشرے کا آغاز ہوگیا۔ انسان خانہ بدوشی کی زندگی ترک کر کے اجتماعی آبادیوں میں رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ انہوں نے پودے اگانے اور گھروں میں جانور پالنے بھی شروع کر دئیے۔ انہی ادوار میں انسان نے برتن سازی کی مہارت میں بڑی ترقی کی کچھ نفیس طبع انسانوںنے برتنوں کو منقش کرنے کا فن بھی ایجاد کیا، پھر متنوع قسم کی دستکاریوں کو رواج دیا تاریخ بتاتی ہے
کہ ظروف سازی( برتن ) بنانے کے کام کو باقاعدہ منظم شکل اس خطہ میں ملی۔ پنجاب میں اس دور کے آثار سرائے کالا (ٹیکسلا) ، پنڈ نوشہری، کھنڈا، جلیل پور، ہڑپہ، بھوت اور چولستان کے علاقے میں بے شمار مقامات سے ملے ہیں۔ ایک محقق ڈاکٹر محمد رفیق مغل نے صرف چولستان میں مدفون بستیاں ڈھونڈی ہیں جن کا تعلق اس تہذیب سے ہے۔ اس تہذیب کا سب سے پہلے ملنے والا شہر ہڑپہ تھااور اسی وجہ سے اسے ہڑپن تہذیب بھی کہا جاتا ہے