42

فرق مسلم و غیر مسلم تجارتی سوچ کا

فرق مسلم و غیر مسلم تجارتی سوچ کا

نقاش نائطی
۔ +966562677707

تجارتی نقطہ نظر سے پورے سال میں ایک دو کمانے کے مواقع تاجروں کو ملا کرتے ہیں جس میں وہ جم کر محنت کرتے ہوئےسال بھرکے اخراجات کا ایک بہت بڑا حصہ کما لیتے ہیں تاکہ معشیتی اتار چڑھاؤ کے چلتے، سال کے مختلف اوقات میں تجارت میں کمی و بیشی ہو بھی تو،انکی معشیتی زندگی اثر انداز نہ ہو

مسیحی ملکوں میں کرسمس نئے سال کا ایک اچھا کمانے کا موقع یا سیزن سمجھا جاتا ہے تو مسلم اکثریتی ممالک میں رمضان و عید رمضان کو کمائی کے اعتبار سے سال کا بہترین موقع سمجھا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ھندو اکثریتی ملک بھارت میں دیوالی کے ایام کمآئی کے اعتبار سے بہترین تصور کئے جاتے ہیں

ایسے مواقع پر کٹرت تجارت کو دیکھتے ہوئے، عموما منافع کم، تجارت زیادہ کرتے ہوئے، کچھ زیادہ کمائی کرنے کی حکمت عملی جہاں اپنائی جاتی ہے، وہیں پر موقع سے فائیدہ اٹھا، اپنے گراہکوں کو لوٹنے کا وطیرہ بھی اپنایا جاتا ہے
ایسے میں جہاں اسلام دشمن غیر مسلم یہود و ھنود و نصاری تاجر احباب، اپنے مذہبی تہوار کے موقع پراپنوں کولوٹنے کے بجائے، کثرت تجارت کے نقطہ نظر سے، اپنی محدود مگر مستقل آمدنی کے ساتھ، امیروں کے ساتھ تمام متوسط و غریب عوام کو بھی کم قیمت اشیاء مہیا کرواتے ہوئے، انہیں بھی مذہبی طور مستفید ہونے کا موقع دئیے پائے جاتے ہیں۔ بنسبت انکے، ہم بعد الموت آخرت، جزاء و سزا پر اور متعین حصول رزق پر یقین و ایمان کامل رکھنے والے،خود ساختہ مسلمان، رمضان و عید کے مواقع پر، اچھا اور تازہ مال دستیاب کروانے کے بہانے، اشیاء دگنی قیمتوں میں بیچ، اپنے ہی ہم مذہب متوسط طبقہ کو لوٹ لوٹ،

دولت سمیٹنے میں ہی مست و مگن پائے جاتے ہیں امریکہ و یورپی شہروں میں جہاں بڑی بڑی سوپر، ہائپر مارکیٹوں، دکانوں میں اور بڑے بڑے تجارتی مال میں،کرسمس و سال نؤ کے تجارتی ایام میں، متوسط و عام شہریوں کے، زیادہ سے زیادہ استفادے کے لئے،عام دنوں کے مقابلے کم قیمت اشیاء اشتہاری طرز جہاں بیچتے پائے جاتے ہیں، وہیں پر ہم ھند و پاک کے مسلم تاجر رمضان و عید کو قدرت کی طرف سے انہیں کمانے کا عطا، بہترین موقع تصور کرتے ہوئے، کٹرت تجارت باوجود عام دنوں کے مقابلے،

ان ایام زیادہ قیمتوں پر سامان تجارت بیچتے ہوئے، اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کو لوٹتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹے پائے جاتے ہیں۔ کفار و مشرکین تو اب ہمارے مذہبی تہواروں کے موقع پر کم قیمت اشیاء ہم متوسط مسلمانوں کو مہیا کرواتے ہوئے،ہم مسلم برادری کے معشیتی حصہ تجارت پر بھی سیندھ مارتے،ہم مسلمانوں کو معشیتی طور کمزورکرتے پائے جاتے ہیں۔اور ایسے مواقع پر بھی اپنی تجارتی حکمت عملی تبدیل کرنےکےبجائے، غیر مسلم تاجروں کو بدنام کرتے، انکا مقاطعہ کروانے کی اپنی ناکام کوشش کے ساتھ،اپنی ذاتی تجارت کو بھی مذہبی رنگ دئیے، اس کا بھی استحصال کرتے پائے جاتے ہیں۔

جبکہ حصول رزق جیسے دنیوی معاملات، بغیر کسی مذہبی تفاوت کے، تقسیم رزق کو، رزاق دو جہاں نے اپنے خود کار نظام،بعد طلوع آفتاب حصول رزق کے لئے نکلنے ، اور اس سمت محنت و جفاکشی سے جوڑ کر، مناسب متعین وقت اور جتنی محنت اتنی اجرت کے اصول مطابق، ان پر رزق کے دروازے وا کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ و یورپ کی تجارتی منڈیاں، جہاں طلوع آفتاب کے ساتھ کھلتی اور غروب آفتاب کے بعد بند ہوتی پائی جاتی ہیں،

وہیں پر ہم مسلم اکثریتی ممالک کی تجارتی منڈیاں، شب بیداری کرنے والی مخلوق الوؤں کی طرح، رمضان جیسے متبرک مہینے میں جسے شب کی عبادت کے لئے تجویز کیا گیا یے اپنی تجارتی بازاروں کو رات بھر کھلا رکھتے ہوئے، ہم مسلمان رات بھر جاگ دوپہر دن ڈھلے تک سوتے پائے جاتے ہیں جبکہ ہمارے آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی معرفت یہ حکم ربانی، ہم مسلمانوں تک پہنچ چکا ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد آسمان سے فرشتہ زمین کی نچلی سطح تک آکر، ندا لگاتا رہتا ہے

کہ “خالق کائینات رب دوجہاں، رزق کے دروازے وا کئے ہوئے، رزق تقسیم کررہے ہیں، مخلوقات میں سے کوئی ہے؟ جو اٹھے، آئے اور اپنے اپنے حصے کی رزق سمیٹ لے” ایسے رزق تقسیم ہوتے صبح کے بہترین وقت میں، جہاں یہود و ہنود و نصاری اپنے اپنے تجارتی مستقر میں بیٹھے رزق سمیٹ رہے ہوتے ہیں،ہم مسلم امہ کی اکثریت گہری نیند میں مستغرق خواب خرگوش سو رہے ہوتے ہیں۔ اور جو مسلمان اپنے مذہبی پاسداری میں صبح نماز کے لئے بھی اٹھ پاتے ہیں بعد نماز وہ بھی بستروں میں آرام کررہے ہوتے ہیں۔

ایسے میں قوم مسلم پر رزق کے دروازے تنگ اور مسلم دشمن یہود و ہنود و نصاری پر رزق کے دروازے وا نہ ہوں تو اور کیا ہو؟ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو، صبح کے، اللہ رب العزت کے رزق تقسیم کرتےاوقات ہی میں، مصروف تجارت و حصول رزق محنت کرتے پائے جائیں اور قرون اولی کے سلف و صالحین کی طرح اور اقوام عالم پر معشیتی و حربی حکومت کرتے پائے جائیں۔ وما علینا الا البلا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں