سیاسی لڑائی میں غریب پس رہا ہے!
ملک میں معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا چلاجارہا ہے ،اندرون اوربیرون ملک کے معاشی ماہرین پاکستان کے جلد دیوالیہ ہونے کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں ،ملک معاشی طور پرڈوب رہا ہے ،مگر وزیر خزانہ اسحاق ڈارماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہیںکہ ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے، وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جلد ہی معاہدہ ہونے والا ہے ،اس کے بعد حالات اچھے ہوتے چلیں جائیں گے
،ایک طرف وزیر خزانہ کے دعوئے ہیں تو دوسری جانب حکومت روزانہ کی بنیاد پر بجلی ،گیس ،پٹرول کی قیمتیں بڑھائے جارہی ہے ،حکومت کے عوام مخالف اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسے احساس ہے نہ ہی دیکھنا چاہتی ہے کہ اس کے عوام مخالف اقدامات سے عوام کی معاشی حالت اتنی پتلی ہو گئی ہے کہ اب غریب لوگ بچوں سمیت خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔
اس وقت ملک پر گیارہ ماہ سے تیرہ جماعتی اتحاد کی حکومت ہے،اس اتحاد نے اقتدار سنبھالتے وقت عوام سے وعدہ کیا تھا
کہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے گا،مگر اس اتحاد ی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں عوامی مسائل کم کیے ہیں نہ ہی جان لیوا مہنگائی سے عوام کو نجات دلا پائی ہے،حکومت مہنگائی کی لہر سے چھٹکارا دلوانے کے بجائے عوام پر مزید بو جھ بڑھائے چلی جارہی ہے ،اس کے پیچھے جہاں حکومتی ٹیم کی نااہلیاں ہیں ،وہیں آئی ایم ایف کے مطالبات کی ایک لمبی فہرست بھی شامل ہے،حکومت اپنے اقتدار کو بچانے اور اپنی نا اہلیوں کو چھپانے کیلئے آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے
عوام پر سارابوجھ ڈال رہی ہے ،مگر خود کوئی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہے ،حکومتی وزراء کی ایک طویل فوج در موج ساری مرعات سے استفادہ کررہے ہیں ، حکومت کی جانب سے ایک طرف دیکھائوے کیلئے ساری مرعات کے خاتمہ کے اعلانات کیے جاتے ہیں تو دوسری جانب مریم نواز اٹھارہ سے زائد گاڑیوں کی پٹرولینگ میں گھومتی دکھائی دیتی ہیں ، یہ کفایت شعاری مہم کے نام پر نہ صرف عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ،بلکہ اس کی بے بسی اور مجبوری کا مذاق بھی اُڑایا جارہا ہے۔
حکمران اتحاد کی ترجیحات میں ملک و عوام کبھی نہیں رہے ہیں ،اس کا ثبوت عوام کی آئے روز بڑھتی چیخ و پکار ہے ،مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ،انہوںنے اپنے کان بند کررکھے ہیں ، انہیں اپنے لانے والے آقا ئوں کی آواز کے علاوہ کسی غریب کی آواز سنائی ہی نہیں دیتی ہے ،اس لیے ایک طرف مہنگائی کا طوفان برپاہے تو دوسرطرف روز مرہ اشیاء ضروریہ کا بحران دکھائی دیے رہا ہے
،ایک ایسا ملک جو زرعی پیداوار میں خود کفیل ہے، وہاں لوگ آٹے کی تلاش میں سر گرداں نظر آرہے ہیں ،مارکیٹ میں آٹامہنگے داموں بھی دستیاب نہیں ہے ،ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری اپنے عروج پر ہے ،جبکہ انتظامیہ تماشائی بنی سب کچھ دیکھے جا رہی ہے ، یہ سب کچھ انتظامیہ کی من منشاء سے ہو رہا ہے ،لیکن انہیں پو چھنے والا کوئی نہیں ،کیو نکہ پو چھے والے ہی سر پرستی کررہے ہیں ،عوام چارسو پس رہے ہیں ،عوام کا کوئی پر سان حال ہے نہ ان کے پاس آہوبکا کے سوا کوئی چارہ ہے ،جبکہ حکومت ادارے اور انتظامیہ فعال بنانے کے بجائے انتخابات کرانے نہ کرانے سے ہی باہر نہیں نکل رہی ہے۔
اِس پرکوئی دو را ئے نہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنا حکومتی مجبوری ہے،مگر عوام کا خیال کرنا بھی حکومتی ذمہ داری ہے ،ایک طرف کاروباری برادری دہائیاں دے رہی ہے تو دوسری جانب عام آدمی بڑھتی مہنگائی کے ساتھ اشیاء کی عدم دستیابی پر پر یشان حال ہے،جبکہ ہمارے سیاست دان عوامی مسائل سے بے پروہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی روایتی بیان بازی میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں
،وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو گرفتار کرنے کے خواہشمند ہیں تو سابق وفاقی وزیر حماد اظہر موجودہ اتحادی حکومت سے عنانِ حکومت چھین کر نگران حکومت کو دینے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں،عوام کے مسائل کا کسی کو احساس ہے نہ عام آدمی کی مشکل سے مشکل تر ہوتی زندگی کو آسان بنانے کی کوئی تدبیر کی جارہی ہے،حکومت اور اپوزیشن قیادت عوام کے مسائل کا تدارک کرنے کے بجائے حصول اقتدار کیلئے دست گریباں ہیں ،اس سیاسی ہاتھی کی لڑائی میں عوام چو نٹیوں کی طرح روندے چلے جا رہے ہیں، اس لڑائی میں ہار جیت کس کی ہوگی کچھ خبر نہیں ،لیکن اس لڑائی میںنقصان صرف غریب عوام کاہی ہورہا ہے