اسلام میں مرد و زن کے لئے شادی کی عمر کیا ہے؟
۔ نقاش نائطی
۔ +96656267770
پہلی فوقیت نوجوانوں کا نکاح:- مفتی طارق مسعوداسلام نے نوجوانوں کی دونوں جنسوں خواہ وہ ذکر ہو یا انثیٰ کی طرف خصوصی توجہ مرکوزکی ہے اوران کی پذیرائی کرکے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کے نزدیک جوانی کی عمر اور عنفوان شباب کا عالم جس میں انسان کے اندر بھرپور قوت و طاقت اور حدسے زیادہ نشاط و حرکت اور کسی کام کے انجام دہی کی،
بے پناہ قوت وصلاحیت ہوتی ہے۔ اس کی، اس کے نزدیک بڑی اہمیت ہے۔ اور جوانی کی عمر، اسلامی تعلیمات کے مطابق بلوغت تک پہنچنے کے بعد 15 سے 30 سال کے درمیان ہے اور جوانی کے عالم میں شہوت وفتوت کا ان کے اندر جو جوش و ولولہ ہوتا ہے، اسلام کے نزدیک اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس عمر میں شباب ،قوت شہوانیہ کے چنگل میں پھنس جائیں اوردنیا کے ظاہری طمطراق و جگمگاہٹ والے عشرت کدوں کے سامنے، اس کی نگاہیں خیرہ ہو جائیں اور وہ اس کے دام میں پھنس کراسی کے ہوکر رہ جائیں۔
لہذا امت اسلامیہ کے قائد اول اور اس کے مرشد اعلیٰ اور مربی اعظم رسول اللہ ﷺ نے جابجا اپنی حدیثوں میں نوجوانی کے اس نازک مرحلہ کی طرف خصوصی توجہ مرکوز فرماتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اور ایسا نوجوان اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں جس کی نشو ونما ہوئی ہو‘‘ بلکہ ایک روایت میں تو اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں وارد ہوا ہے جس کوحافظ ابن حجرؒ اسقلانی علیہ الرحمہ نے حدیث مذکور کی شرح میں ذکر فرمایا ہے۔ درحقیقت وہ اس موضوع پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ چسپاں ہوتی ہوئی نظر آتی ہے
وہ یہ کہ ’’ایسا نوجوان جس نے اپنی نوجوانی اللہ کی اطاعت وفرمانبردای میں فناکردی ہو‘‘۔ یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ علمائے کرام نے اس ضمن میں یہ بھی تصریح فرمادی ہے کہ اس حکم کے عموم میں نوجوان دوشیزائیں بھی داخل ہیں اور ان کا اس عموم میں شمارہونا قرین قیاس بھی ہے لہذاان کو بھی اس حکم میں شامل سمجھا جائے گاکیونکہ نوجوانوں کی طرح دوشیزائیں بھی شہوانی خواہشات سے بھرپور ہیں اس لئے دونوں پر ایک ہی حکم کا اطلاق ہوتا ہے ۔دونوں میں کسی صورت میں بھی تفریق نہیں کی جاسکتی۔
اسی طرح امام حاکم ؒ نے اپنی کتاب ’’صحیح مستدرک‘‘ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے جوکہ صحیح کا درجہ رکھتی ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا ہے:- ’’ 5 چیزوں کو 5 چیزوں سے پہلے پہلے غنیمت جانو۔‘‘ اوران 5 چیزوں کے ضمن میں فرمایا:- ’’بوڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانو!۔‘‘ کیونکہ جوانی کا مرحلہ ایسا مرحلہ ہے جس کو عمرکا سنہرا موقع باورکیا جاناچاہئے اس لئے کہ جوانی کے ایام تو وہ ایام ہوا کرتے ہیں جن میں انسان پورے طور پر صحت وعافیت اور ہرطرح کی حرکت و نشاط سے مالامال ہوتا ہے
لہذا اسے دینِ اسلام کی بھر پور خدمت اوراس کی طرف پوری توجہ مرکوز کرنے اوراچھے کاموں کی انجام دہی نیز حصول علم اورزندگی کے مختلف میدانوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر صرف کرنا چاہئے اس سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوانوں سے اس کی نوجوانی کے بارے میں حساب وکتاب ہوگابالخصوص نوجوانوں سے ایام شباب کے بارے میں، اور اس میں بھی ان کے تصرفات کے بارے میں سختی کے ساتھ پوچھ گچھ ہوگی
اب یہ ہم آج کل کے خاندانی صاحب مقتدر لوگوں پر ہے کہ نوجوانی کی دہلیز پر اولاد کے پہنچنے کے بعد، انکی شادی کی فکریں کریں نہ کہ نوجوانی کی دہلیز پار کرنے کے بعد۔ ہر کسی کی کچھ نہ کچھ مجبوری ہوتی ہے لیکن یاد رکھیں ذکر و انث کسی بھی کے جوانی کی دہلیز درمیان کوئی بھی جنسی لغزش ہوتی ہے
تو وقت پر انکی شادی نہ کرنے والے یا انہیں وقت پر شادی کرنے مائل نہ کر سکتے والے نوجوانوں کے سرپرست ہم ہی تو کل، قیامت کے دن قہار و جبار رب دو جہاں کے یہاں جواب دہ ہونگے اس وقت ہماری کوئی معشیتی مجبوری کام نہ آئیگی
یہاں مسلم معاشرے میں عموما یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں حصول تعلیم کے بعد روزگار پر سیٹ ہوجائے دیں تب شادی کی جائے گی، جب کہ ہم اس حقیقت کا بھی ادراک بخوبی رکھتے ہیں رزق دینے والا تو رزاق دوجہاں ہے۔ انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں سے رب کی رضا کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا اور عموما یہ سمجھا جاتا ہے شادی بعد دلہن یا اسکے ہونے والے بچوں کی قسمت سے بھی کثرت رزق ملتی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں پھر کیوں ہم بچوں کے اعلی تعلیم یافتہ یا انکے روزگار میں سیٹ ہونے کا انتظار کریں یہ سب تو بعد شادی بھی کئے جاسکتے ہیں وما علینا الا البلاغ