محمد قوی خان/پاکستانی ڈرامے کا پہلا ہیرو
تحریر، نثاربیٹنی(جنرل سیکریٹری ‘بیٹنی’ پریس کلب)
پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے ابتدائی دور میں اعلی پائے کے فنکار متعارف کرائے جنہوں نے اگلے 40 سال تک پردہ سکرین پر اپنی اداکاری کا سکہ جمائے رکھا، پی ٹی وی کی تاریخ میں 70 اور 80 کی دہائیاں شاندار خصوصیات کا حامل رہیں، ان دہائیوں میں بے مثل اداکار، منفرد کہانی کار اور بے داغ ہدایتکار منظرعام پر آئے، پی ٹی وی کی ابتداء 26 نومبر1964 کو ریڈیو پاکستان لاہور کے عقب میں جھونپڑی نما کمرے میں ہوئی
یہ ابتداء جاپانی الیکٹرونک کمپنی ‘نپن، کے تعاون سے ممکن ہوئی، اس دن کی پہلی نشریات میں جہاں حمد و نعت، بچوں کا پروگرام، تازہ خبریں اور مزاحیہ انگریزی فلم پیش کی گئی وہاں “نذرانہ” کے نام سے پی ٹی وی کی تاریخ کا پہلا انفرادی کھیل بھی پیش کیا گیا، یہ ڈرامہ براہ راست نشر کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی وی کے اس پہلے ڈرامے کا ریکارڈ موجود نہیں، اس پہلے ڈرامہ ‘نذرانہ’ کے ہیرو محمد قوی خان تھے
جبکہ ہیروئن نیر کمال تھیں جو اس دن کی پہلی نشریات میں پیش کیے جانے والوں پروگراموں کے فنکاروں(ہدایتکار، اداکار، اداکارہ، تیکنک کار، موسیقار، گلوکار، ریکارڈسٹ، سیٹ ڈیزائینر، میک اپ مین، ایکسٹرا فنکار، میزبان، نیوزکاسٹر وغیرہ) میں واحد زندہ فنکارہ ہیں، ڈرامہ نذرانہ گوکہ ایک ناکام ڈرامہ تھا لیکن پی ٹی وی کی تاریخ میں اسے خاص اہمیت حاصل ہے جبکہ یہی اہمیت اداکار قوی خان کو بھی حاصل ہے جو چند قبل دن وفات پاگیے، لیجنڈ اداکار قوی خان ایک اکیڈمی تھے، انہوں نے ڈراموں اور فلموں میں لاتعداد بیمثال کردار ادا کیے،
اپنے ابتدائی ڈرامے نذرانہ کے بعد وہ فلموں کی طرف چلے گیے اور پھر تقریبا 20 تک شہرت کے گھوڑے پر سوار رہے، 70 کی دہائی میں قوی خان سینکڑوں فلموں میں سائیڈ ہیرو اور کریکٹر ایکٹر کے روپ میں جلوہ گر ہوئے، 70 کی دہائی میں کوئی بھی اردو فلم قوی خان کے بغیر نامکمل تصور کی جاتی تھی،
انہوں نے اس وقت کے ٹاپ کلاس اداکاروں محمدعلی، وحید مراد، ندیم، شاہد، اعجاز، غلام محی الدین اور دیگر اداکاروں کیساتھ کریکٹر ایکٹر کے طور پر لازوال کردار ادا کیے بلکہ بعض مناظر میں وہ فلم کے ہیرو پر بازی لے جاتے تھے، انکی یادگار فلموں میں گورا کالا، روشنی، چوری چوری، پہچان، سہرے کے پھول، نادان اور دیگر کئی سپرہٹ فلمیں شامل ہیں، 80 کی دہائی کے ابتدائی سالوں کے بعد اردو فلمیں بتدریج کم بننا شروع ہوئیں تو قوی خان بھی فلم سکرین پر کم کم آنا شروع ہوئے، یوں انہوں نے دوبارہ اپنے پرانے گھر یعنی پی ٹی وی کا رخ کیا
اور طویل کھیلوں کے سلسلے ڈرامہ81/ ڈرامہ82/ ڈرامہ 83/ ڈرامہ 84/ ڈرامہ 85 اور ڈرامہ86 کے بیشتر کھیلوں کا بوجھ اکیلے اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا، بھلا مرزا اینڈ سنز، گھنٹی، دروجنوں، میری سادگی دیکھ، کوئی تو ہو اور تکمیل جیسے شاہکار ڈراموں کو کون بھول سکتا ہے، بعدازاں مشہورزمانہ ڈرامہ سیریز ‘ اندھیرا اجالا’ میں قوی خان نے ڈی ایس پی کے یادگار، ایماندار اور پراثر کردار ادا کیا،
لیجنڈ قوی خان پورے کیرئیر میں اگر صرف فلم پہچان(1975)، فلم چوری چوری(1977) اور ڈرامہ اندھیرا اجالا(1984) اور ڈرامہ82 کے کھیل دورجنوں میں کام کیا ہوتا تو یہ انکی پہچان کے لیے کافی ہوتا، محمد قوی خان جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، اگر پی ٹی وی کے دس بہترین اداکاروں کی فہرست بنائی جائے تو یقینا’ قوی خان اس فہرست کے پہلے تین نمبروں میں موجود ہونگے، راقم(نثاربیٹنی) کی لاہور میں موجودگی کے باوجود اور ریڈیو پاکستان باقاعدگی سے جانے کے باوجود قوی خان سے ملاقات نا ہوسکی
جس میں الفاظ کی درست ادائیگی، چہرے کے حقیقی تاثرات اور جملوں کا خوبصورت انداز لازم و ملزوم تھا ذومعنی جملوں کا تصور بھی محال تھا، قوی خان چلے گیے لیکن اردو زبان کے درست لب و لہجے، جملوں کے کاٹ دار معنی اور بامقصد کرداروں کی صورت میں اپنی یاد چھوڑ گیے،