105

صحافت،اور سوشل میڈیا تضاد

صحافت،اور سوشل میڈیا تضاد

صحافت،اور سوشل میڈیا تضاد

تحریر: فائزہ شاہ کاظمی

صحافت کا روایتی تصور سوشل میڈیا نےبدل دیا ۔ اب لوگوں کی بڑی تعداد خبر کے لیے سوشل میڈیا کی جانب رجوع کرتی ہےپاکستان میں بہت سارے مسائل اور جرائم کے واقعات ایسے سامنے آتے رہتے ہیں جن کے ضمن میں پیش رفت یا ان کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے جانے کے پیچھے سوشل میڈیا کا مسلسل دباؤ ہوتا ہے۔ اگر سماجی روابط کے ذرائع ابلاغ کا یہ کردار نہ ہو تو کسی کو مین سٹریم میڈیا سے امید نہیں تھی

کہ وہاں ان معاملات پر تسلسل کے ساتھ بات کی جاتی اور دباؤ ڈالا جاتا،تاہم، سوشل میڈیا کے کچھ ایسے اثرات بھی ہیں جو منفی کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں پروپیگنڈا کرنا اور غلط خبریں پھیلانا ایک معمول کا کام ہے جن پر بہت سے لوگ اعتبار کرلیتے ہیں، صحافیوں کیخلاف ٹرولنگ کی جاتی ہے، اداروں اور ملک کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں اداروں کے افسران، ملک کے نامور شخصیات، صحافیوں کی کردار کشی کرنا سوشل میڈیا پر معمول بن چکا ہے، ہمارے ملک کی بدنامی کا سبب جھوٹ پھیلانے والے وہ صارفین ہیں جو چند ڈالر سوشل میڈیا سے کمانے کی خاطر اداروں اور بالخصوص حساس اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کرتے ہیں ہمارے سینئر صحافیوں کو اور اداروں کو چاہیئے

اسکا مثبت حل نکالا جائے۔ تاکہ ملک نسل اور صحافی پروپیگنڈہ سے محفوظ رہ سکیں موجودہ حالات سےپاکستانیوں کو مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ زندگی میںمشکل حالات آتے جاتے رہتے ہیں ،کامیابی انہی کو ملتی ہے جو ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، پیشہ صحافت جہاں خدمت خلق کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ، وہیں ایک لحاظ سے خطرناک پیشہ بھی ہے

لیکن صحافت اور صحافیوں پر تنقید کرنے والے اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں کہ کس طرح صحافیوں کو جان ہتھیلی پر رکھ کر حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔سماج کی خدمات کیلئے صحافی انتہائی احترام کے مستحق ہیں۔ پیشہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ اگرچہ یہ مقدس پیشہ ہے لیکن نہایت پر خطرناک بھی ہے۔ صحافی جس طرح فسادات اور ہنگامی حالات میں خدمات انجام دیتے ہیں، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ صحافی کیسے سنگین حالات میں کام کرتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو سوشل میڈیا جیسے خطرناک نیٹ ورک سے بچانے کی ضرورت ہے،نواجونوں کو صحافت سیکھائی اور پڑھائی جانی چاہیے

صحافت کے لوازمات اور صحافیوں کے فرائض کیا ہوتے ہیں انکو سیکھایا اور بتایا جانا چاہیے تاکہ نوجوانوں میں کسی چیز کیلئے ڈر وخوف نہ رہے ، نواجون حقیقت کو سمجھ سکیں، بیان کر سکیں اور سوشل میڈیا پر زہر اگلنے والوں سے ملک و عوام کو محفوظ رکھ سکیں، بلکہ وہ ہر مشکل کام کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کریں۔ ہمیں صحافت اورپاکستان کی موجودہ سیاسی و کاروباری حالت پر فکر و تشویش اور ڈر و خوف میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنے عزم و حوصلوں کو بلند رکھتے ہوئے اپنے قدم آگے بڑھانے چاہئے

۔ ہم حکومتوں کو خوش کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے صحافتی فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ہمیں اپنے مسائل پیش کرنے کے معاملہ میں کسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوجوان نسل کوچاہئے کہ وہ خود کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کریں۔سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے کی بجائے ہر خبر کی تحقیق کرنا سیکھیں ، جھوٹی خبریں صرف سیاستدانوں کی جانب سے نہیں بلکہ ملک دشمن ممالک سے بھی بنائی اور لگائی جاتی ہیں، ہماری نوجوان نسل اس سوشل میڈیا پر جھوٹ کی پھیلتی ہوئی بیماری میں اس قدر مبتلا ہو رہے ہیں کہ انکے اندر سے احساس ختم اور نفسیاتی طاقت ختم ہوتی جارہی ہے

ہماری نوجوان نسل کے اندر جھوٹ پھیلا کر زہر بھرا جا رہا ہے ہمیں چاہیے صحافت کے اصول پڑیں خبروں کی تحقیق کریں اسکے بعد ایک ایسی مظبوط قوم بنیں کہ پوری دنیا میں ایک پاکستانی نوجوان نسل کا پیغام پہنچے کہ ہم سب ایک ہیں اورا پنے اتحاد کے ذریعہ ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں