ملک ہے تو سب کچھ ہے !
ملک میں ہر طرف پر یشانی چھائی ہے اور اس پر یشانی میں کچھ بھی سجھائی نہیں دیے رہا ہے ،ایک طرف سیاسی بحران بڑھتا جارہا ہے تو دوسری جانب معاشی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ،اس بحرانی صورتحال میں بھی سیاسی قیادت کی شعبدہ بازیوں کا کھیل جاری ہے ،ایک دوسرے کو نیچادکھانے اور ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کیلئے سارے جائز ونا جائز حربے استعمال کیے جارہے ہیں ،
اپوزیشن اپنی احتجاجی سیاست سے حکومت پر دبائو بڑھا رہی ہے تو حکومت بھی اپنی انتقامی سیاست سے اپوزیشن کودیوار سے لگارہی ہے ،اس آئے روز کی بڑھتی محاذ آرائی کی سیاست میں ایسا لگتا ہے کہ ہماری گاڑی کسی ایسی سر نگ میں داخل ہو چکی ہے کہ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی دکھائی نہیں دیے رہا ہے ۔
اس وقت ملک کو جن سیاسی و معاشی سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے،ان سے نمٹنے کے لیے سیاسی استحکام لازم شرط ہے تاہم حالات مخالف سمت میں جاتے نظر آرہے ہیں، کثیر الجماعتی حکومتی اتحاد نے گیارہ ماہ پہلے عمران خان کی حکومت کو رخصت کرکے بگاڑ کی آخری حد کو پہنچی ہوئی معیشت کی بحالی کی جو ذمے داری اپنے سرلی تھی، ایک طرف اس کی تکمیل میں حائل دشواریاں کم ہونے میں نہیں آرہیں
تو دوسری جانب خود حکمراں اتحاد میں بھی اختلافات بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں،عوام سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس تیرہ جماعتی اتحا کو کس مقصد کیلئے اقتدار میں لایا گیا تھا ،حکمران اتحاد کے سارے دعوئے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ،کہیں پر کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،اس کے باوجود بضد ہیں کہ اقتدارچھوڑیں گے نہ ہی عوام کی عدالت میں جائیں گے ، ریاست بچائو کے نام پر اپنی سیاست بچانے کا کھیل کھیلا جارہا ہے ،ایک طرف عوام پر قر ضوں کا بوجھ در بوجھ ڈالا جارہا ہے
تو دوسری جانب آئے روز مہنگائی میں اضافہ کرکے عوام سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جارہا ہے ،ملک کو سب نے مل کر دیوالیہ کر دیا ہے ،مگر حکمران ماننے کیلئے تیار ہیں نہ لوٹی دولت واپس لانا چاہتے ہیں ،عوام کو ہی بار بار قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ۔اس بارعوام قر بانی دینے کیلئے تیار ہیں نہ ہی خا موشی سے سب کچھ برداشت کریں گے ،عوام اب سوالات اُٹھانے لگے ہیں اور ان سوالات کے جواب میں بہت سے حقائق سے پردہ اُٹھنے لگا ہے
،عوام پر واضح ہو نے لگا ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر اہم عہدوں پر فائز لوگ کس حدتک گرسکتے ہیں ،اس ملک میں حکمران چند ہزار ڈالر کے عوض جہاں اپنے بندوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کا اقرار کرتے ہیں ،وہیں کچھ غلط فیصلے سر زد ہو نے کا اظہار بھی کیا جارہاہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے
کہ صورتحال کس قتدر خو فناک حدتک خراب ہو تی جارہی ہے ،لیکن اہل حکومت اور اہل سیاست کے روئیوں میں کوئی تبدیلی ٓرہی ہے نہ ہی کوئی سنجیدگی دکھائی دیتی ہے ،ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹھرانے کالا متنا ہی سلسلہ جاری رکھاجارہا ہے ،جبکہ اس حمام میں سارے ہی ننگے اور سارے ہی گندے ہیں ۔
عوام آزمائے کو آزمانا چاہتے ہیں نہ ہی زبر دستی مسلط کردہ قبول کرتے ہیں ،عوام ہر آزمائے سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ،اس کیلئے عام انتخابات کی جانب جانا ہی ہو گا ،لیکن حکمران اتحاد عام انتخابات سے بھاگ رہے ہیں ،اس سے سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہورہا ہے، جو کہ ملکی سیاست اور جمہوریت کیلئے انتہائی نقصاندہ ہے ،حکمران اتحاد کو عوام کی عدالت میں جانے سے بھاگنا چاہئے نہ ہی اپوزیشن کو حالات ساز گار بنائے بغیر عام انتخابات پر زور دینا چاہئے ،انتخابات سے قبل سیاسی فرْیقین میں ہم آہنگی ملک کو سیاسی بے چینی سے نکالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے،لیکن یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے
بھی کوئی پہل کرنے کو تیار نہیں ہے ،اس سے مایوسی اور بے چینی جہاںبڑھتی جارہی ہے ،وہیں یہ سوچا جارہا ہے کہ اگر انتخابات سے قبل حالات اتنے ہی ناساز گار ہیں تو انتخابی عمل کے دوران اور بعد کے حالات کیسے ہوں گے ؟اس وقت دیکھا جائے توسیاست کا گندا کھیل اپنے حتمی مرحلے کی جانب گامزن ہے،ہر سیاسی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ محب وطن ہے اور ملک کیلئے کچھ بہتر کرنا چاہتی ہے ،
انہیںمجبور کرنے والے کوئی اور نہیں ،بلکہ یہ عاقبت نااندیش سیاستدان ہی ہوں گے ،جو کہ فیئر پلے پر یقین نہیں رکھتے ہیں، اگرسیاستدانوں کیلئے اپنی سیاست ملک سے زیادہ اہم ہے تو فوج کیلیے بھی ریاست اور اس کی سالمیت زیادہ اہم ہے،یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں اور سب کچھ بھی ایسے ہی چلتا رہے گا ،ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں بچے گا