سیاست کا محور ریاست کا مفاد !
ملک میں سیاسی انتشار دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے، حکومت سیاسی انتشار کی آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے تیل چھڑک کر مزید بھڑکا رہی ہے ،حکومت اپنی ساری قوت سابق وزیراعظم کی گرفتار ی پر لگا رہی ہے ،لیکن تحریک انصاف کے کارکنان نے مزاحمتی حصار بنا کر حکومت کی ساری کوششیں ناکام بنادی ہے ،حکومت بدحواسی کا شکار عدالتی حکم نامے کی آڑ میںاپنی اَنا کی تسکین کیلئے ایسے اقدامات کررہی ہے
،جوکہ بیرونی دنیا میں بھی جگ ہنسائی کا باعث بننے لگے ہیں ۔پی ڈی ایم نے گیارہ ماہ قبل تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت گرانے اور اپنی حکومت قائم کرنے میں تو کامیابی حاصل کرلی، لیکن اس عمل نے تحریک انصاف قیادت کی مقبولیت میں انتہائی اضافہ کردیا ہے،اب صوبہ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عدالتی حکم نامے کے مطا بق دونوں صوبوں میں انتخابات منعقد ہونے ہیں،
لیکن حکومتی جماعتیں اور مقتدرہ کی کچھ قوتیں فوری طور پر انتخابات سے گریز کررہی ہیں،حکومت کی کو شش ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ جس کے بعد انتخابات کا انعقاد ہی مشکل ہو جائے،حکومت ایک طرف سیاسی و معاشی عدم استحکام کو جواز بنارہی ہے تو دوسری جانب اپنے سیاسی انتقام کے ذریعے اپوزیشن کو دیوار سے لگاکر حالات بگاڑ رہی ہے، اس سارے بگاڑ کا مقصد صرف انتخابات سے راہ فرار ہے۔
حکمران اتحاد انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے بھی تحریک انصاف قیادت کو ہی مود الزام ٹھرارہی ہے ،سارا ملبہ پی ٹی آئی قیادت پر ڈالا جارہا ہے ،لیکن اپنے رویئے پر غور نہیں کیا جارہا ہے ،حکمران اتحاد نے اپنے دور اقتدار میں اپنے خلاف مقدمات کا خاتمہ اور اپوزیشن کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے ،حکومت نے اپوزیشن قیادت کے خلاف سو کے قریب مقدمات بنا کر ان کی گرفتاری پر ہی ساری قوت صرف کررہی ہے ،جبکہ اپوزیشن قیادت کا کہنا ہے
کہ حکمران انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں ،ایک طرف سیاسی بحران کا منظرنامہ سنگین ہوتا جارہا ہے تو دوسری جانب اقتصادی بحران نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں اور یہ سوالات قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہورہی ہیں،ملک کودیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کی بحالی ضروری ہے
،لیکن آئی ایم ایف کی ساری شرائط پر عمل درآمد ہونے کے باوجود ابھی تک معاہدے پر دستخط کی منظوری کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے سیاسی بحران کی وجہ سے حکومت کی ضمانت کو عالمی ادارے بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کو معاہدے پر دستخط پر آمادہ کرنے کے لیے امریکا سے بھی رجوع کیا ہے ،اس کے بعد پاکستان میں متعین امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا بیان سامنے آیا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کرتے ہیںاورچاہتے ہیں
کہ پاکستان کی آئی ایم ایف سے ڈیل ہوجائے، امریکہ کی جانب سے جہاںآئی ایم ایف کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ تعاون کی بات کی جارہی ہے، وہیں امریکی صدر کے سابق مندوب زلمے خلیل زاد کے ذریعے پاکستانی حکومت کو کچھ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ پاکستان بڑی صلاحیت کے باوجود انتہائی کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے
اور اپنے بڑے حریف بھارت سے بہت پیچھے ہے ،یہ وقت گہرے سوچ بچار، جرأت مندانہ موقف اور حکمت عملی اختیار کرنے کا ہے،قیدوبند، قتل اور تختہ دار پر لٹکانے جیسے حربوں کے ذریعے سیاسی رہنمائوں کو منظر سے ہٹانا غلط راستہ ہے، موجودہ سیاسی و معاشی بحران کی موجودگی میں امریکی سفیر اور ایک سابق امریکی سفارت کار کے بیانات کے شدید مضمرات ہیں، ایسے عالم میں سیاسی قوتوں کا باہمی تصادم کسی کے بھی فائدے میں نہیں ہے۔پاکستان کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں،
وہاں افہا م و تفہیم کی ضرورت انتہائی بڑھ جاتی ہے،لیکن حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے ہیں، عمران خان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں، حکومت کہتی ہے کہ امن و امان اور مالی حالت اچھی نہیں ،اس لیے الیکشن نہیں کرا سکتے،عمران خان کہتے ہیں ان پر سو کے قریب مقدمات انتقامی کارروائی ہیں، حکومت کہتی ہے عمران خان کی حکومت میں پی ڈی ایم رہنماوں کو انتقام کا نشانہ بنایا گیاتھا، عمران کہتے ہیں
کہ نوے روز کی آئینی شرط پوری کی جائے ، حکمران جماعت کہتی ہے پہلے نواز شریف کے خلاف مقدمات ختم کئے جائیں اور ترازو کے دونو پلڑ ے برابر کیے جائیں،ان تمام اختلافی نکات کا بڑا حصہ قانونی پابندیوں سے جڑا ہے ،حکومت چاہتے ہوئے بھی کچھ معاملات میں اپنے رہنماوں کو رعایت نہیں دے پا رہی ہے،اس کے باعث اشتعال بڑھتا جارہا ہے،اس کشیدگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے، مگر اس کے لئے سیاسی رہنماوں کی مرضی کی بجائے قومی مفاد میں معاملات طے کرنا ہوں گے، ایک دوسرے کے خلاف نفرت پر مبنی بیانات اور اقدامات روکنا ہوں گے،
پاکستان کی معیشت اور سیاست اسی روز سنبھلنے لگیں گی کہ جب سیاست کا محور ریاست کا مفاد ہو گا، اس سیاسی کھیل میںبہتر ہو گا کہ ریاست کے مفاد میںمفاہمت کا سنجیدہ عمل جلدشروع کیا جائے،بصورت دیگر مزیدبگڑتے حالات میں سب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا