موجود دور میں زرد صحافت ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔اس وقت حقیقت پسند صحافیوں کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے 84

یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے !

یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے !

ملک بھر میں آئے روزبڑھتی سیاسی کشیدگی کے باعث حالات ناساز گار ہوتے جارہے تھے ،لیکن اب سیاسی کشیدگی میں کمی آنے کے امکانات روشن ہو نے لگے ہیں،وزیراعظم شہبازشریف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے بات چیت کیلئے عندیہ دیدیے ہیں،وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئیں نفرت اور زہر پھیلانے کے بجائے محبت بانٹیں اور قوم کے دکھ درد کو تقسیم کریں، غربت، بے روز گاری، بیماری ختم کریں،

اگر ہم نے اب بھی عملی اقدامات نہ اٹھائے تو بہتری نہیں ہو سکے گی، دوسری جانب سے بھی وزیر اعظم کے پیغام کا جواب خاصے مثبت انداز میں دیا گیا ہے، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کاکہنا ہے کہ پاکستان کی ترقی، مفادات اور جمہوریت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا، اس ضمن میں کسی سے بھی بات کرنے کیلئے تیار ہوں ،سابق وز یر اعظم عمران خاں کی سوچ میں بنیادی تبدیلی قابل قدر اور ستائش کے لائق ہے کہ انہوں نے قومی مفاد اور جمہوریت کی خاطر کسی سے بھی بات کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے،

اس پیشکش کا خوش دلی سے خیر مقدم کیا جاناچاہئے اور کسی تاخیر اور لیت و لعل کے بغیر قومی سطح پر سیاسی قائدین کے مابین وسیع تر مذاکرات کا آغاز کیا جانا چاہئے کہ یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ بہت دیر سے سہی ،مگر سیاسی فریق نے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا عندیہ دیا ہے

،تاہم ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے اور بات چیت کے لیے فضا ساز گار بنانا، بنیادی طور پر برسراقتدار جماعتوں کی ہی ذمہ داری ہوا کرتی ہے، اس لیے وزیر اعظم کو اپنی جانب سے جذبہ خیر سگالی کے اظہار میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے،یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی کابینہ کے ارکان کو تلخ نوائی، الزام تراشی اور دھمکی آمیز بیانات سے روکے، ورنہ دونوں ہی جانب سے مل بیٹھنے کے امکانات معدوم ہو تے جائیں گے،

اس سے قبل بھی وزیر اعظم نے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا، عمران خاں نے اپنے سخت موقف کے باوجود اس کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کر دی تھی، مگر حکومت نے خود ہی کانفرنس ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا اور دوبارہ آج تک کانفرنس کی نئی تاریخ کا اعلان نہ کر کے اپنے غیر سنجیدہ ہونے کے تاثر کو تقویت دی ہے۔حکومت کا ایساطرز عمل کسی طرح بھی قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا،

حکومت بار ہا اپوزیشن پر ہی اعتراض کرتی آرہی ہے کہ مل بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ،لیکن حکومت نے کبھی خودمذاکرات کی دعوت میں سنجیدگی اختیار نہیں کی ہے ، ایک طرف حکومت اور اپوزیشن نے مذاکرات کرنے نہ کرنے کاتماشا رچا رکھاہیں ،جبکہ دوسری جانب عوام غربت، مہنگائی اور بے روز گاری کی چکی میں پس رہے ہیں اور اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کر نے میں ناکام ہو گئے ہیں،

غریب کے پاس اپنے بچوں سمیت خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچاہے ، جبکہ عوامی مسائل سے بے پرواسیاسی قیادت باہم کشیدگی کو ہوا دینے اور ایک دوسرے پر الفاظ کی گولہ باری کر نے میں مصروف ہے، یہ سیاسی قوتوں کی چپقلش اور محاذ آرائی مسائل اور مصائب میں گھرے عام آدمی کے لیے جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے، اس صورتحال میں سیاسی قیادت کے لیے مناسب طرز عمل یہی ہے کہ باہمی لڑائی کے ذریعے عوام کے مسائل میں اضافہ کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کریں ،تاکہ عوام کو دہری اذیت سے چھٹکارہ مل سکے ۔
سیاسی قیادت کو ایک میز پر بیٹھانے کوئی باہر سے نہیں آئے گا ،سیاسی قیادت کو خود ہی آگے بڑھنا ہو گا ،صدرِ پاکستان پہلے ایک کوشش کر چکے ہیں ، ایک بار پھر یہ ذمہ داری لیتے ہوئے فریقیں کے فوری مل بیٹھنے اور بات چیت کے آغاز کا بندوبست کر سکتے ہیں،یہ سب کی خواہش اور اُمید بھی ہے کہ دونوں ہی فریق مل بیٹھنے کی اپنی بات پر قائم رہیں گے، اپنے گریبانوں میں جھانکیں گے، اپنی غلطیوں کو سدھاریں گے

اور صحیح معنوں میں عوامی رہنما ہونے کا حق ادا کریں گے، اس معاملے پرکسی بھی طرف سے کوئی یوٹرن نہیں لیا جائے گا۔ اہل ِ سیاست پر لازم ہے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک میز پر بیٹھیں، اپنی ذاتیات کے بجائے ملکی مفاد کو مقدم جانیں اور عوام کے حق میں فیصلہ کریں،سیاسی قائدین عوام کا رہنما ہونے کا دعویٰ تو بہت کرتے ہیں، عوام کے مفادات کی جنگ لڑنے کا نعرہ بھی لگاتے ہیں

تو اِن کا ہر قدم اِن کے قول کا عکاس بھی ہونا چاہئے، عوام اپنی قیادت سے اپنے مسائل کے تدارک کے خواہاں ہیں،اگراس بار بھی سیاسی قیادت نے اکٹھے مل کر ملک وعوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہ کی تو عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں