موجود دور میں زرد صحافت ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔اس وقت حقیقت پسند صحافیوں کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے 55

سیاسی انتشار اور ملکی مفاد !

سیاسی انتشار اور ملکی مفاد !

ملک کے سیاسی حالات بہتر ہو نے کے بجائے مزید خراب ہونے کے اندیشے بڑھنے لگے ہیں ، سیاسی حالات میں بہتری کی امیدیں بنتی ہیں اور پھر ٹوٹ جاتی ہیں ،دوروز پہلے ہی وزیر اعظم شہباز شریف اور چیئر مین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے انداز میں مذاکرات پر آمدگی کا اظہار کیا تھا ،اسے سیاسی تنائو میںکمی کے امکان کے طور پر دیکھا جارہا تھا ،لیکن گزشتہ روز زبان پارک پر پولیس کی بے رحمانہ کاروائی نے ملک کے سیاسی حالات کیلئے جلتے پر تیل کاکام کیا ہے ،ملک پہلے ہی سیاسی انتشار کا شکار ہے ،اس قسم کی حکومتی کار وائیوں کے نتائج خرابی میں مزید اضافے کا ہی سبب بن سکتے ہیں ۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف عوامی مقبولیت میں سب سے آگے کھڑی ہے ،اس مقبول جماعت کے خلاف کاروائیاں کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ، حکمران اتحاد ایک طرف پی ٹی آئی قیادت کے خلاف انتقامی کاروائیاں کررہے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کو دہشت گرد جماعت ڈکلیئر کرنے کی کوششین کی جارہی ہیں ،

زمان پارک میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت ضرور کی ہے، لیکن اس مزاحمت کو عسکریت کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے؟یہ ایک سیاسی جدوجہد ہے ،جس پر مزاحمت کا رنگ غالب ہے،اس طرح کے مظاہرے دنیا بھر میں ہورہے ہیں ، مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی جاری ہیں، مگر اسے کسی صورت عسکریت پسندی کا نام دیا جا سکتا ہے نہ ہی احتجاج کرنے والے دہشت گرد کہلاتے ہیں۔
تحریک انصاف قیادت بار بار کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکمران انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں ،اْن کی بات میںمبالغہ آرائی ہو سکتی ہے، مگر مریم نواز جب ایسی باتیں کریں کہ تحریک انصاف کو دہشت گرد جماعت کے طور پر ڈیل کیا جائے تو اس خدشے کو تقویت ملے گی کہ حکومت کسی نہ کسی طریقے سے تحریک انصاف پر پابندی لگانا اور پی ٹی آئی قیادت کو سیاست سے آؤٹ کرنا چاہتی ہے، اگر کسی مقبول سیا جماعت کو صرف اس لئے دہشت گرد جماعت قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ ہمارے سیاسی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہے تو پھر اس ملک میں سیاست ایک کھیل بن کر ہی رہ جائے گی،

مریم نواز اچھی طرح جانتی ہوں گی کہ ایسے مطالبات کو پورا کرنا ممکن نہیں ہو گا،مگر اس کے باوجو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے مطالبہ کیا جارہاہے،اس سے اْن کے اندر کی نفرت ہی جھلکتی ہے جو کہ آج کل اْن کی سیاست کا محور بنی ہوئی ہے۔اس سیاسی نفرت سے خود کو وقتی تسکین تو دی جاسکتی ہے ، مگر عوام پر اْن کا کوئی اثر نہیں ہوتاہے،حکمران اتحاد جو کچھ مرضی کہے اور کرتا رہے ،تحریک انصاف اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سیاسی افق پر موجود ہے

،اگر پی ٹی آئی واقعی عسکری جماعت ہوتی تو شایدحکمران اتحاد کواتنی پروا نہ ہوتی، کیونکہ عسکری جماعتوں کا انجام سب نے دیکھا ہے ،پی ٹی آئی مخالفین کی کوشش ہے کہ کہ تحریک انصاف کا انجام بھی ایم کیوایم جیسا ہی ہو جائے ،مگر ان کی خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، تحریک انصاف کسی پر حملہ آور ہو رہی ہے نہ کسی دہشت گرانہ کاروائی میں ملوث ہے ،یہ بوقت ِ ضرورت اپنے پارٹی چیئرمین کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے، اْس کی تنظیم صرف لاہور یا زمان پارک تک محدود نہیں ،بلکہ ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے اور چاروں صوبوں میں موجود ہے،اس لیے انقامی سیاست کا نشانہ بناکر اسے سیاست سے نکالا جاسکتا ہے نہ ہی دیوار سے لگایا جاسکے گا ۔
حکمران اتحاد جانتے ہیں کہ تحریک انصاف جیسی مقبول جماعت کو دیوار سے لگایا نہیں جاسکتا ہے ،لیکن اس کے باوجود کوشش جاری ہے ،ایک طرف پی ٹی آئی کو دہشت گرد جماعت قرار دلونے کیلئے ناجائز حربے استعمال کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب عمران خان پر تیزی سے مقدمات بنائے جارہے ہیں،یہ سیاسی تاریخ کا واحد دور ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ پر اتنی بڑی تعداد میں مقدمات درج کر لئے گئے ہیں،بہت سے مقدمات تو ایسے ہیں کہ جن میں عمران خا کا براہِ راست کوئی کردار ہی نہیں ہے

،اب ظاہر ہے ایسے مقدمات تو روزانہ درجنوں کے حساب سے درج کئے جا سکتے ہیں،اس سے سیاسی کشیدگی میں اضافے کے سوا کچھ حاصل ہو نے والا نہیں ہے ،لیکن ایک ضد و اَنا کے ساتھ ہارنے کا خوف طاری ہے ، جس کیلئے سب کچھ کیا جارہا ہے ،بہتر تو یہی ہے کہ ملک میں سیاست کو چلنے دیا جائے اور کسی سیاسی جماعت کو دیوارسے لگانے کی کوشش نہ کی جائے، ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں ہیں، البتہ سیاسی بے چینی میں اضافہ ضرور ہو جاتا ہے۔اس وقت ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے

،لازم ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کو نشانہ بنانا بند کر یں ، ایک دوسرے کو سیاست سے نکالا جائے نہ دیوار سے لگایا جائے ، اس انتشار کی سیاست کا خاتمہ ہو نا چاہئے ،یہ آئے روز بڑھتا سیاسی انتشار ملکی مفاد میں نہیں ہے ،یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے ،اگر ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں رہے گا ،اس لیے ملک کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر سارے مسائل کا حل تلاش کر نا چاہئے

،ملک سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر آچکا ہے ،دنیا بھر میں معاشی مقابلے جاری ہیں اور ملک عزیز میں سیاسی کھنچا تانی عروج پر ہے ،اس سیاسی انتشار سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ مل بیٹھ کر افہاو تفہیم سے عوام کی عدالت سے رجوع کیا جائے اور عوام کو فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے ،عوام باشعور ہیں، کبھی غلط فیصلہ نہیں کریں گے ،عوام کی منتخب قیادت ہی ملک وعوام کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں