موجود دور میں زرد صحافت ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔اس وقت حقیقت پسند صحافیوں کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے 40

نفرت کا بت توڑا جائے!

نفرت کا بت توڑا جائے!

ملک سیاسی محاذ آرائی کے باعث تباہی کی طرف جارہا ہے ،موجودہ پی ڈی ایم حکومت بھی وہی کررہی ہے، جوکہ سابق حکومتیں کرتی رہی ہیں،حکمران اتحاد اپنے سیاسی مخالفین کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنارہے ہیں ،جھوٹے مقدمات بنائے جارہے ہیں ،گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں ،گرفتاریاں کی جارہی ہیں،ا گر حکومت سوچتی ہے کہ ایسے منفی ہتھکنڈوں سے اپوزیشن کو شکست دے گی یا اگلے انتخابات میں کلین سویپ کر ے گی تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے‘ تحریک انصاف قیادت مقبولیت کے ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ جہاں انہیں شکست دینا ناممکن دکھائی دیے رہاہے ۔
حکمران اتحاد کو انتخابات میں اپنی شکست صاف دکھائی دیے رہی ہے ،اس لیے انتخابات میں جانے سے گریزاں ہیں ،تاہم تحریک انصاف اپنے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے اور پرزور احتجاجی تحریک کے ساتھ ہر آئینی وقانونی راستہ اختیار کررہی ہے ،ایک طرف تحریک انصاف کی انتخابات کرونے کیلئے جدوجہد جاری ہے تو دوسری جانب حکمران اتحاد انتخابات سے بچنے کیلئے تمام جائزو ناجائز حربے استعمال کررہے ہیں ،

حکمران اتحاد نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے نہ سکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،ایک بار پھر وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،ایک بار پھر انتقامی سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے،ایک بار پھر عوام کی عدالت میں جانے سے راہ فرار اختیار کی جارہی ہے ،اس سے حکومت کی ساکھ بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو رہی ہے ،حکمران اتحاد کو انتخابات دیر یاسویر کروانے ہی پڑیں گے ،لیکن انتخابات میں جتنی تاخیر کی جائے گی ،

ملک میں سیاسی انتشار اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا۔اِس وقت حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی تقسیم سب کے سامنے واضح ہوتی جارہی ہے، دونوں ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، بلکہ زمین پر گرانے پر تلے ہوئے ہیں،حکومت کے پاس ریاستی طاقت ہے اور اس کا بھر پور استعمال کیا جارہا ہے ،جبکہ تحریک انصاف کے پاس عوامی طاقت ہے، وہ اْسے بروئے کار لا رہی ہے،دونوں جانب اپنے زور بازو پر بھروسہ کیا جارہا ہے

،سیاسی معاملات سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر حل کیے جاسکتے ہیں، مگر نجانے کون سی طاقت ہے، جوکہ اِن دونوں کو بات چیت کی میز تک آنے نہیں دے رہی ہے ،دو روز پہلے ہی وزیراعظم شہباز شریف نے بیان دیا تھاکہ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کو تیار ہیں ،عمران خان نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا،مگرسوال یہ ہے کہ اس معاملے کو صرف بیانات کی حد تک ہی رکھا جا رہا ہے،آگے بڑھ کر عملی شکل دینے کی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی ہے، عمران خان کو مقدمات پر مقدمات بنا کر اپنے موقف سے دستبردار کرایا جا سکتا ہے

نہ اپنی یکطرفہ مہم کے ذریعے حکومت کو مطالبات ماننے پر مجبور کر سکتے ہیں،یہ دونوں کام نہیں ہو سکتے، تاوقتیکہ دونوں فریق کھلے دِل سے مذاکرات پر آمدگی ظاہر نہ کریں، حکومت کی طرف سے ابھی تک تحریک انصاف کو مذاکرات کی سنجیدہ دعوت نہیں دی گئی ہے،اگر حکومت ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دیے تو برف پگھل سکتی ہے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا اور کشیدگی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ،اس میں سرا سر نقصان ملک کا ہی ہو رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کو ذاتیات کے بجائے ملکی مفادمیں سوچنا ہو گا ،ایک طرف ملک سیاسی ومعاشی بحران سے دوچار ہے تو دوسری جانب عوام بڑھتی مہنگائی بے روز گاری کی چکی میں پستے جارہے ہیں ،اگرسیاسی افراتفری ایسے ہی جاری رہی اور عالمی سطح پر معاشی تعاون کا گرین سگنل بھی نہ ملا تو حالات سب کے بس سے باہر ہوجائیں گے، اس لیے اب بھی وقت ہے کہ اپنی اَنا اور نفرت کے بت توڑ کر مل بیٹھنے کی بات کی جائے، قوم وملک کا سوچا جائے ،افہام و تفہیم سے ایسی پالیسی مرتکب کی جائے

،جوکہ سیاست کے ساتھ معیشت کو بھی پٹڑی پر لے آئے ،گر اب بھی ایسا نہ کیا گیااور معاملات جوں کے توں ایسے ہی چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ جب سری لنکا کے عوام کی طرح پاکستان کے عوام بھی حکمرانوں کے محلات میں داخل ہو جائیں گے اور پھر جس کے ہاتھ میں جو بھی آئے گا، اس کی خیر نہیں ہوگی،

یہ تیزی سے گردش کرتاوقت اب بھی سیاستدانوں کو ڈھیل دے رہا ہے ،لیکن یہ ڈھیل زیادہ دیر کیلئے نہیںہے ،اقتدار کے چراغوں کی مدھم ہوتی روشنی بوجھنے کے قریب ہے، ڈریئے اس وقت سے کہ جب عوام کے ہاتھ میں حکمرانوں کے گریباں ہوں گے، عوام انہیں ایوان اقتدار سے اُٹھا کر باہر پھنکیں گے اور انہیں بچانے کو ئی آگے نہیں آئے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں