عالمی سطح پربنتےبگڑتے رشتے،امن عالم قائم رکھنے، ممد و مددگار ہوسکتے ہیں 37

ان روساء کے فرعونی فیصلوں کو،مشیت ایزدی کی مصلحت مان قبول کرنا پڑیگا

ان روساء کے فرعونی فیصلوں کو،مشیت ایزدی کی مصلحت مان قبول کرنا پڑیگا

نقاش نائطی
۔ +966562677707

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نےلمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہےبڑے بڑے سیاست دان ذاتی طور پر خود کےلئے یا اپنی سیاسی پارٹی کو جیت سے ہمکنار کرنے کے لئے، اعلی تعلیم یافتہ سائبر میڈیا ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کیا کرتے ہیں، جیسے آجکل بھارتیہ انتخابی دنگل میں پرشانت کشور کا نام بڑا مشہور ہوا ہے۔ 2014 بی جے پی کی جیت کے پیچھے پرشانت کشور کا دماغ جہاں کہا جارہا ہے

وہیں اپنی یا اپنی پارٹی کی جیت پکی کرنے کے لئے، پرشانت کشور کی خدمات لیتے پائے جاتے ہیں۔ پرشانت کشور کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، مینگلور سے تعلق رکھنے والے دوبئی کے رہائشی عمران بھائی سمیت کچھ مسلمان سائبر میڈیا ایکسپرٹ بھی انتخابی دنگل صلاح کار سامنے آچکے ہیں۔ ابھرتے ہوئے ہمارے قومی سیاسی رہنما جناب عنایت اللہ شاہ بندری نے بھی، ایسے کچھ سائبر میڈیا ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں

جدہ کے کچھ قومی درد رکھنے والے ساتھیوں نے، خلیجی ملکوں کے ہم قومی سو ڈیڑھ سو ارباب حل وعقل پر مشتمل، قوم نائط کے تین عملی تجربہ کار دانشور جناب سید محی الدین برماور، سابق چیرمین سیاسی پینل اور سابق صدر تنظیم اور دامودی یحیی صاحب اور الطاف کھروری صاحب، سابق جنرل سکریٹری مجلس اصلاح و تنظیم کے ساتھ ایک آن لائن زوم میٹنگ رکھی ہوئی تھی۔ جس میں احقر کو بھی اپنی آراء پیش کرنے کا اتفاق ہوا تھا،

جس میں ہم نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا تھا کہ انتخاب جیتنے کے لئے لاحیہ عمل ترتیب دینے سے قبل کالیکٹ ویناڈ بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم کی طرف سے منعقدہ اہل بھٹکل کی سب سے بڑی بین الجماعتی کانفرنس طہ شدہ متفقہ قرارداد “قوم مسلم کی سیاسی نمائیندگی” جو اب تک سابقہ دس بارہ سالوں سے مجلس اصلاح و تنظیم کے دفتروں میں سڑ مر کراہ رہی تھی اسے ان دفتروں سے باہر نکال، وقت کی قومی آواز میں اسے تبدیل کر،سابقہ 15 سالوں سے، اپنی ذاتی صلاحیتوں سے، قوم کی نیابت کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے

خادم قوم مشہور عنایت اللہ شاہ بندری سمیت کسی بھی قومی بھائی کو، سیاسی لیڈر کی حیثیت، اسے ایک اعلی و ارفع مقام دلوانے کے لئے، کیسے لاحیہ عمل ترتیب دیا جائے، اسکے لئے کسی دانشور صلاح کار کا انتخاب وقت کی اہم ضرورت ہے۔قومی سطح پر،اداروں میں اور کانفرنسوں میں تمام تر قرارد دایں جو بالاتفاق پاس ہوتی ہیں انکا اطلاق صرف اور صرف غریب و متوسط عوام پر ہی ہوا کرتا ہے قوم کے سرمایہ دار، اشرافیہ ہمیشہ سے قوانین سے اوپر ہوتے ہیں۔ان پر کوئی قرارداد یا قانون لاگو نہئں ہوتا پے

2008 عام انتخاب میں تنظیم فیصلہ کانگریس کے حق میں ہوا تھا اس وقت یہی عنایت اللہ اپنی ریاستی سیاسی پارٹی کے کچھ بڑے لیڈروں کے ساتھ اپنی جنتا پارٹی کے لئے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سزا کے طور مجلس اصلاح و تنظیم کی مجلس منتظمہ سے کچھ سالوں کے لئے تڑی پار کیا جاتا ہے۔ لیکن اسی عنایت کو، مجلس اصلاح و تنظیم کی تائید سے 2013 اسمبلی انتخاب جب لڑایا جاتا ہے

تب عنایت اللہ کو شکست فاش دینے کے لئے، عنایت اللہ کے خلاف انتخابی میدان، کام کرتے ہوئے، کم و بیش 9ہزار ووٹ تنظیم مخالف ھندو امیدواروں کو دلوانے والے، قومی سطح بااثر ارباب حل و عقل پر، قومی گاز گرنے کی تو دور کی بات،اس پر تبصرہ تک نہئں کیا جاتا ہے۔ یہ اس لئے ان بااثر منافقین قوم کی سرپرستی، قوم کے درد کا رونا صدا روتے رہنے والے باثر خلیجی ممالک سرمایہ دار ہوتے ہیں جو کسی صورت متوسط طبقہ کے سیاسی لیڈر جیت بعد اسکی نیابت کو کسی طور برداشت نہیں کرسکتے ہیں
جس قوم کی سب سے بڑی بین الجماعتی کانفرنس ویناڈ کیرالہ کی متفقہ قرارداد ،”اپنی ذاتی کاوشوں سے کسی بھی ریاستی سیاسی پارٹی کا آنتخابی ٹکٹ حاصل کرنے والے، کسی بھی فرزند قوم کے پیچھے، پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہوتے ہوئے، چالیس سال قبل ہم اہل نائط سے چھینی گئی اسمبلی سیٹ کو واپس قومی لیڈر جیت سے حاصل کرنے کی تمام تر کوشش کی جائیگی” اس قرار کے خلاف قومی ابھرتی لیڈر شب کا قتل عام کر، ھندو لیڈر کے آگے قومی ساتھ ہزار ووٹ دان کرنے کا اختیار، ان خلیجی لیڈروں کو آخر کس نے دیا ہے؟

کیا ان لیڈروں کا یہ عمل بین الجماعتی کانفرنس، سیاسی طور مسلم نمائندگی جستجو قراداد کے خلاف عمل نہیں ہے؟ اپنے وقت کے سرمایہ داروں نے اسی کے دہے میں ڈی ایچ شبر مرحوم کو آزاد امیدوار کی حیثیت انتخابی میدان اتارتے ہوئے، سیکینڈ لائن آف لیڈر شب تیار کرنے کے بالاتفاق تنظیم فیصلہ کے خلاف، شمبھو گؤڈا کو سیاسی انتخابی میدان میں اتار کر، اس کی جیت کو قومی انا کا مسئلہ بنا انتخاب لڑکر، کانگریس کے ہاتھوں شکست فاش کھاتے ہوئے، قوم نائط کو سابقہ 40 سالوں سے سیاسی یتیم کیا نہیں بنایا گیا تھا؟

بعد انتخاب اسکا احساس خود ان سرمایہ داروں کو بھی ہوا تھا۔ اسی طرز آج قوم کے چند رؤساء نے، ویناڈ کالیکٹ بین الجماعی کانفرنس میں بالاتفاق پاس شدہ قرار داد کے خلاف، حالیہ چوکونی اسمبلی انتخابی مقابلہ میں جیت کے پورے اتار ہوتے پس منظر باوجود، قوم کی ابھرتی سیاسی قیادت کا دن کے اجالے میں قتل عام کیا ہے۔ کیا اس پر لاکھ سے زائد نفری قوم نائط، ان روساء کے گھناؤنے سیاسی کھیل کو خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہے گی؟

فی زمانہ پیسے کے کھیل اس انتخابی دنگل میں ایک گھرانہ کے دو چار ووٹ حصول کے لئے کئی کئی ہزار لٹائے جاتے ہیں، قومی ہمدردی کا رونا روتے، قومی ساٹھ ہزار ووٹوں کا سودا کتنے کروڑ میں طہ ہوا ہے؟ اور کون کون فرزندان قوم اس سے استفادہ حاصل کرینگے؟ کیا اس پر بھی ارباب حل وعقل و فہم و علماء کرام کی نظر ہے؟زوم مشاورتی میٹنگ میں سابق جنرل سکریٹری مجلس اصلاح و تنظیم نے، اشارتا اس بات تذکرہ کیا تھا کہ “بقول منیکال اس نے قومی ووٹ خریدنے کا مناسب انتظام کرلیا ہے” کیا خلیجی روساء کی تائیدی جدوجہد سے آج مجلس اصلاح و تنظیم سیاسی پینل کا قومی امیدوار کے خلاف جو فیصلہ آیا ہے، کیا منیکال کے اعلان کردہ خفیہ ڈیل ہی کے سبب قوم پر نازل کیا فیصلہ تو نہیں ہے؟

عالمی سطح پر 200 سے زیادہ آزاد ملکوں پر، اپنی حکمرانی قائم کرنے، 2 فیصد عالمی آبادی والے یہود، اپنی معشیتی بالادستی کے سہارے امریکی ایوانوں پر قبضہ جمائے، امریکہ ہی کو آلہ کار بنائے،200 سے زیادہ آزاد ملکوں پر اقوام متحدہ عالمی ادارہ بنائے، پورے عالم پر اپنی حکمرانی قائم کرنے، قوم یہود کامیاب جیسے ہوتے ہیں، ہمارے قومی ایک دو عددی روساء، قومی اداروں پر خلیج کونسل اور کینرا کونسل کا انعقاد کرتے ہوئے، اپنے ذاتی فیصلوں کو، قومی فیصلوں کی صورت لادنے میں ہمیشہ سے کامیاب رہے ہیں

۔ 2013 عام انتخاب کے موقع پر،خلیج کونسل کا موقف آج ہی طرح قومی، امیدوار کے خلاف تھا۔ لیکن اس وقت کینرا ساحلی پٹی کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں پر، عنایت اللہ شاہ بندری کی اچھی گرفت ہونے کی وجہ ہی سے، اس وقت ان روساء کے فیصلے کے خلاف ساحلی پٹی کی جماعتوں کی تائید سے عنایت اللہ،تنظیم سیاسی پینل میں اپنے لئے رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ اس انتخاب کے فورا بعد پورے ساحلی علاقوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں پر اپنی بالادستی قائم کرتے ہوئے،

اس وقت کینرا کونسل قائم کرتے پس منظر میں، اسی وقت ہم نے عنایت اللہ کو خبردار کیا تھا کہ آئندہ تنظیم سیاسی پینل میں، ان علاقوں کی تائید حاصل کرنا ان کے لئے جوئے شیرلانے کے مترادف عمل ہوگا۔ اس وقت کہی ہماری پیشین گوئی آج اپنی 15 سالہ انتھک محنت خدمت باوجود کینرا علاقوں کی چھوٹی چھوٹی جماعت تائید حاصل کرنے میں ناکام اب عنایت اللہ کو احساس ہوگیا ہوگا کہ فی زمانہ اس پیسے کی جھنکار والے پس منظر میں، اخلاص و خدمات پر سرمایہ داروں کی نظر کرم بھاری پڑا کرتی ہے

اور اصول دنیا عالمی پس منظر ہوکہ مقامی سیاسی پس منظر، ایک دو فیصد سرمایہ داروں کے ذاتی فیصلے ہی، قوم و ملت پر ہمیشہ سے بھاری ہوتے پائے جاتے ہیں۔ اسی لئے ایسے قومی مفاد کے خلاف پاس ہوئے،قومی فیصلوں کو بھی مشیت ایزدی مان، ہمیں خاموش تماشائی بن دیکھنا پڑتا ہے یہ اس لئے کہ بحیثیت مومن یہ ہمارا ایمان کامل ہے بقول شاعر مظفر رزمی مرحوم،
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

ایسے سرمایہ دار حکمرانوں کی معمولی غلطیوں لغزشوں کی سزا بھلے ہی وقت کی طاقت ور ترین اور معشیتی مضبوط ترین قوم نائط کو، سابقہ 40 سالہ سیاسی یتیمی ہی کی طرح، مستقبل کے دس بیس سال مزید سیاسی یتیمی ہی کیوں نہ جھیلنا پڑے؟ ہمیں اپنے رؤساءکی انانیت کے فیصلوں کے آگے، سرخم تسلیم کرنا ہی پڑیگا۔ اس لئے کہ ان روساء کی فرعونیت کے پس پشت، رزاق دوجہاں کی مشیت ہی تو پنہاں ہمیں تلاشنی پڑتی ہے وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں