60

زرد صحافت کا دھندہ عروج پر

زرد صحافت کا دھندہ عروج پر

تحریر میاں افتخار رامے

موجود دور میں زرد صحافت ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔اس وقت حقیقت پسند صحافیوں کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے۔ زرد صحافت اور کنٹرولڈ میڈیا کا دور ہے۔ صحافت کو ذہن سازی اور مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔ پہلے ادوار میں سیاست دان میڈیا کے ایکا دوکا نامور صحافیوں کو خرید لیتے تھے تاکہ من پسند خبریں چلوا سکیں اور اپنے پسندیدہ سوالات والے انٹرویو نشر کروا سکیں۔ لیکن اب صورتحال بالکل مختلف ہے اب صحافیوں کو نہیں بلکے میڈیا ہاؤسز کو خریدا جاتا ہے

اور وہ انہی کی پالسی کے مطابق خبریں اور ٹاک شو چلاتے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کے بکنے کے بعد وہاں کے صحافیوں کو بھی ادارے کی پالیسی کے مطابق ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ دنیا نیوز ، بول اور اے آر وائے جیسے بڑے ناموں نے بکنے اور جھکنے سے انکار کرکے صحافت کو زندہ رکھا۔ جب یہ میڈیا ہاؤسز نہیں بکے تو انہوں نے ان میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے صحافیوں کو خریدنے کی کوشش کی اور انکار پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ارشد شریف شہید کی موت ، عمران ریاض اور صدیق جان کی گرفتاری جیسے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ وہ صحافی ہیں جنہوں نے آمریت کا دور ہو یا پھر جمہوریت کے نام پر سول آمریت کا اپنی صحافتی زمہ داریوں کو احسن طریقے سے سر انجام دیا۔پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی روایت ن لیگ نے شروع کی جو ابھی بھی جاری و ساری ہے۔ اس وقت مریم نواز صاحبہ جن کے پاس کوئی حکومتی عہدہ تو نہیں ہے

لیکن وہ پاکستان کا تمام میڈیا کنٹرول کرتی ہیں۔ کس چینل یا اخبار کو کتنے کروڑ روپے کے اشتہارات دینے ہیں یہ فیصلہ بھی وہ خود کرتی ہیں۔ جو اخبارات یا چینل ن لیگ کی پالیسی کے مطابق خبریں نہیں لگاتے ان کے اشتہارات روک کر انہیں گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کا تمام میڈیا تقریباً کنٹرول ہے اور بڑے بڑے صحافی اپنے مفادات کی خاطر بکے ہوئے ہیں۔ویسے تو مجھے صحافتی زمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے

13 سال ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ 2017 کی بات ہے جب میں ایک بڑے میڈیا ہاؤس میں اہم عہدے پر اپنی زمہ داریاں سر انجام دے رہا تھا۔تب اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کے دھرنے کی کوریج اور خبروں کے لیے میڈیا ہاؤسز کو کھل کر استعمال کرنا شروع کیا۔ ن لیگ کو حکومت سے آؤٹ کرنے کے لیے انکا میڈیا ٹرائل کروایا گیا

اور عمران خان کے لیے لوگوں کے دلوں میں سافٹ کارنر پیدا کیا گیا۔ عمران خان کے دور حکومت میں باقاعدہ میڈیا ہاؤسز کو مثبت رپورٹنگ کی تاکید بھی کی جاتی رہی۔ لیکن عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد جو پالیسی نواز شریف کے خلاف اپنائی گئی وہ ہی پالیسی عمران خان کے خلاف بھی استعمال کی گئی۔

عمران خان کو حکومت سے نکلے 11ماہ ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے میڈیا کے ذریعے عمران خان کا میڈیا ٹرائل کروایا اور اسے 2023 کے عام انتخابات سے آؤٹ کرنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن ہر مرتبہ ناکامی انکا مقدر بنی اور ہر پلان بری طرح فیل ہوتا گیا۔
عمران خان کوجب رجیم چینج آپریشن کے ذریعے حکومت سے نکالا گیا تو اس نے امریکہ کے تمام مہروں کے خلاف اعلان جنگ کا اعلان کر دیا جو اس سازش میں ملوث تھے۔ ایسی سازش پاکستان میں پہلی مرتبہ نہیں ہوئی

قائد اعظم محمد علی جناح ، فاطمہ جناح اور بھٹو جیسے عظیم لیڈروں کو بھی سازش کے تحت ہی گرایا گیا اور پاکستان میں ہونیوالا ہر الیکشن کنٹرول کرکے من پسند شخصیات کو جتوایا گیا۔ لیکن عمران خان کی حکومت جانے کے بعد جو حالات اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو چکا ہے شاید ایسی صورتحال پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملی رہی ہے۔ اس بار پاکستانی عوام جسے 75سالوں سے بے وقوف بنایا جا رہا ہے

وہ جاگ چکی ہے اور اس کا تمام کریڈیٹ سابق وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے۔ اب یہ قوم صدیوں سے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کا حساب خود لے گی۔ اور انشائ￿ اللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں پہلی بار عوام کا منتخب وزیراعظم اپنی زمہ داریاں سنبھالنے کے بعد مہنگائی ، غربت اور بد ترین معاشی حالات سے پاکستان کو نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا تب ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں