موجود دور میں زرد صحافت ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔اس وقت حقیقت پسند صحافیوں کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے 50

از خود درست فیصلے کی ضرورت!

از خود درست فیصلے کی ضرورت!

ملک کو درپیش شدید معاشی مشکلات میںحکومت غریب عوام کی مدد کرنے کی نیت سے تمام ممکنہ اقدامات کر نے کی کوشش کررہی ہے، اس حوالے سے تازہ اقدام موٹر سائیکل، رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کیلئے پچاس روپے فی لیٹر سبسڈی دینے کا اعلان ہے،حکومت کی جانب سے عوامی رلیف کے اقدام خوش آئند ،مگر ملک کی مالیاتی صورتحال دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف پہلے ہی سبسڈی پر قدغن لگا رہا ہے

توحکومت پٹرول جیسی آئٹم پر سبسڈی کیسے مہیا کر پائے گی،اگر ہمارے رہنما عبوری حکمت عملی کے بجائے ملک کو ٹھوس منصوبہ بندی سے چلائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ درپیش بحرانوں پر قابو نہ پایا جاسکے ،قوموں کی زندگی میں ایسے مشکل ادوار آتے رہتے ہیں ،مگر باصلاحیت قیادت کی درست حکمت عملی ایسے ادوار سے نکلنے کے راستے پیدا کرتی ہے ،جبکہ ہماری قیادت کا رویہ مسلسل انتہائی مایوس کن ہی رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس مشکل دور میں عوام کو ایک روپے کا بھی کوئی رلیف مل سکے تو ضرور ملنا چاہئے ،لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس طرح کی شارٹ ٹرم پالیسیوں سے اب تک غریب مستحقین نے کتنا فائدہ اُٹھایا ہے اور سر مایہ داروں کو کتنا فائدہ پہنچایا جاتا رہا ہے ،احساس راشن پروگرام سے بھی بہت سے غریبوں کو رلیف ملا ہو گا ،لیکن اس کیلئے غریب کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ،یہ ایک غریب ہی جانتا ہے

،حکومت نے فری آٹا سکیم بھی شروع کی ہے ،لیکن اس فری آٹے کے حصول میں غریب کی کتنی تزلیل ہورہی ہے اور کتنے مر رہے ہیں ،یہ بات کسی سے پو شیدہ نہیں ہے ،حکمرانوں نے رلیف کے نام پر غریب عوام کو بھکاری بنا کر رکھ دیا ہے ۔ہمارا مقصد حکومت پر بے جا تنقید کرناہر گز نہیں ،بلکہ حکمران اور ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ اس طرح کی مشروط سبسڈیز سے عام آدمی بہتر طور پر مستفید ہو سکتا ہے

نہ ہی مہنگائی میں کوئی کمی لائی جاسکتی ہے ،اس سے موٹر سائیکل یا چھوٹی گاڑی رکھنے والے شہری تو شائد کسی حد تک مستفید ہو جائیں ،لیکن جن غریبوں اور مزدوروں کے پاس اپنی سواری نہیں ،انہیں اس سبسڈی سے کیا فائدہ ہو گا؟اگر حکومت سو ،پچاس روپے کی مشروط سبسڈی کے بجائے ہر خاص وعام کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں تیس سے چالیس روپے بھی کمی کردے تو مختلف اشیا کے نرخ میں کملائی جاسکتی ہے

،اسی طرح غریب کو مفت آٹے کی فراہمی کے بجائے اوپن مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کم کر دی جائے تواس سے ملک بھر کے عوام مستفید ہو سکیں گے ،کیو نکہ آئے روز بڑھتی مہنگائی سے کوئی ایک نہیں، ہر کوئی پریشان حال ہے ۔یہ حقیقت بخوبی سب ہی جانتے ہیں کہ اس سخت معاشی بحران کے باعث سب سے زیادہ سفید پوش طبقہ متاثر ہورہا ہے ،اس کے پاس اتنا سر مایہ ہوتا ہے کہ بڑھتی مہنگائی میں اپنے خاندان کی تمام ضروریات پوری کرسکے نہ ہی حکومت کی جانب سے کسی مشروط سبسڈی کا ہی فائدہ اُٹھا سکتا ہے

،اس معاشی بحران میں غریب کے ساتھ متوسط طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے ،یہ کوئی ارباب اختیار کو بتائے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور معاہدہ اپنی جگہ ، لیکن اہم فیصلے عوامی مفاد اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی کیے جانے چاہئے،لیکن یہ عوامی مفادات کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں ،جبکہ عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات کرنے والے وفود میں ایک بھی ایسا شخص شامل نہیں ہے

،جو کہ غریب اور سفید پوش طبقے کی درست نمایندگی کرسکے ،انہیں تو آٹے ،دال کا بھائو بھی معلوم نہیں ہوتا ہے ،یہ عوام کی نمائندگی کے دعوئیدار عالمی معاہدوں کی پاسداری ضرور کریں ،مگر نئے معاہدے کرتے وقت ملک کے بائیس کروڑ عوام کے مسائل و مشکلات کو بھی سامنے رکھیں ،عوام کا احساس کرنا اور عوام کو رلیف فراہم کرنا، آئی ایم ایف کی نہیں ،موجودہ حکمران اتحاد کی ذمہ داری ہے ۔
اس وقت حکمران اتحاد کو گیارہ کا عرصہ ہو چکا ہے ،لیکن حکمران اتحاد کے سارے وعدے اور دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،حکومت سیاسی استحکام لاسکی نہ معاشی بحران دور کر پائی ہے ، ملک میں سیاسی استحکام لا کر جب تک طویل جامع منصوبہ بندی نہیں کی جائے گی،ملکی حالات میں بہتر ی لانا شاید ممکن نہیں ہے ، وزیراعظم شہباز شریف کی مفت آٹا سکیم اور سستے پٹرول کا ریلیف پیکیج اپنی جگہ ،لیکن اگر واقعی عوام کو رلیف دینا مقصود ہے تو بلا امتیاز رلیف دینا چاہے، پاکستان امیر غریب طاقتور کمزور سب کا ہے، ہمیں بہت سے سخت، لیکن درست فیصلے خود سے کرنے کی ضرورت ہے،

تاکہ پاکستان روز روز کے معاشی اورسیاسی بحرانو ں سے نکل کر خوشحالی کے راستے کا مسافر بن سکے اورعام پاکستانی کی زندگی میں سکون آ سکے،ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے میں بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے، اب ہمیں آگے بڑھنے کے لئے افہام و تفہیم سے از سرِ نو صف بندی کرنا ہی ہوگی،اس میں ہی ملک وعوام کے ساتھ سب کیلئے بہتری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں