موجود دور میں زرد صحافت ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔اس وقت حقیقت پسند صحافیوں کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے 44

یہ مکالمے کا وقت ہے!

یہ مکالمے کا وقت ہے!

اس وقت ملکی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ،کوئی ایک سیاسی جماعت یا محض حکومت کچھ بھی نہیں کرسکتی ہے ،اس کیلئے سب کو ہی مقدور بھر حصہ ڈالنا ہو گا ، بقو ل سابق وزیر اعظم ملک کو ٹھیک کرنے کیلئے سرجری کرنا پڑے گی،تاہم یہ سب کچھ کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات ہے نہ ہی حکومت اپنے طور پر کوئی اقدامات کر سکتی ہے، اس کیلئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، جوکہ دور تک کہیں نظر نہیں آرہا ہے،ہمارے سیاسی قائدین سیاست نہیں، ریاست بچانے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،مگر عملی طور پر کو ئی ریاست پر سیاست قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے ،اگر حکومت انتقامی سیاست کی راہ پر گامزن ہے تو اپوزیشن بھی احتجاجی سیاست کے نام پر ساری حدود پار کررہی ہے ، سیاسی قیادت نے اپنے ماضی سے نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،وہی پرانی باتیں دھرائی جارہی ہیں،وہی پرانے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ فلاں غیر ملکی ایجنٹ ہے ،فلاں دشمن کا آلہ کار ہے ،فلاں غدار ہے ،فلاں دہشت گرد ہے ،حکومت کا مقصد کسی بھی طرح اقتدار میں رہنا ہے ،جبکہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ انہیں اقتدار سے باہر نکلا جائے ،جبکہ عوام کا کسی کو بھی احساس نہیں ہے کہ وہ کس عذاب سے گزررہے ہیں ،سیاسی قیادت کو حصول اقتدار کی پڑی ہے ،جبکہ عوام بے چارے حصول آٹے میں بے مو ت مررہے ہیں۔
حکمران اتحاد کے عوام کو رلیف دینے کے سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،حکومت عوام کو رلیف دینے میں جہاں ناکام رہی ہے ،وہیں ملک کو در پیش بحرانوں سے نجات بھی نہیں دلا سکی ہے ، اس کے باوجود حکمران اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار ہیں نہ عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں ،حکومتی اتحاد میں کم وپیش بارہ جماعتیں ہیں ،لیکن اس مین سے کسی ایک کو بھی احساس نہیں ہے کہ عوام کس بڑے عذاب سے گزررہی ہے ،اس حکومتی اتھاد مین سے کسی ایک نے بھی اتنی اخلاقی جرأت نہیں دکھائی کہ دکھائوے کے طور پر ہی حکومت سے علیحدہ ہو جائے ،ایسا کبھی ہو گا نہ ہی کوئی کرے گا ،

کیو نکہ ان کی دم توڑتی سیاست کی بقا ء اقتدار سے چمٹے رہنے میں ہی ہے ،انہیں جب تک حالات کی گردش مجبور نہیں کردیتی ،انہیں عوام کا درد کبھی نہیں ستائے گا۔یہ حکمران اتحاد کی بے حسی کی انتہا ہے کہ عوام اپنا پیٹ بھرنے کیلئے مرنے تک کے جتن کررہے ہیں ،جبکہ حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کے کلاف کاروائیوں سے ہی فرصت نہیں ہے ،شاید حکمران اتحاد بھول چکے ہیں کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی

،آج اُن کی باری ہے تو کل اِن کی باری بھی آسکتی ہے ،لیکن حکومتی وزراء سب کچھ بھول بھال کر فرعونیت پر اُترے ہوئے ہیں ،وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نہ صرف دھمکا رہے ہیں ،بلکہ کھلے عام انتقامی کاروائیاں بھی کررہے ہیں،اس حوالے سے وزیر داخہ رانا ثنا اللہ کا بیان اعتراف جرم کا درجہ رکھتا ہے کہ جب بات بقا کی آجائے تو پھر قانونی و غیر قانونی کی بحث ختم ہو جاتی ہے ،اب وہ رہیں گے یا پھر ہم رہیں گے،ظا ہری بات ہے کہ جب ایسی صورتحال ہو جائیگی تو انتظامی معاملات کا وہی حال ہو گا جو کہ اس وقت ساری عوام ہی بھگت رہے ہیں۔یہ سب کچھ پہلی بار ہو رہا ہے نہ ہی آخری بار ہو گا

،لیکن یہ سب کچھ ایسے کب تک چلتا رہے گا ،اس کا کہیں تو سد باب کرنا ہی پرے گاس ،عوام آئے روز کی محاذ آرائی سے تنگ آچکے ہیں ،عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ،جبکہ سیاسی قیادت انہیں اپنی محاذ آرائی میں ہی الجھائے جارہے ہیں ،سیاسی قیادت کو محاذآرائی میں پہلے کچھ ملا نہ آئندہ کچھ ملنے والا ہے ،الٹا نقصان ہی اُٹھانا پڑے گا ،اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ مل بیٹھا جائے اور سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں ہی حل کیا جائے

،اس کیلئے ایک میز پر بیٹھنا ہو گا ، لیکن ایک میز پرکون بٹھائے گا ؟یہ مقتدر قوتوں کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے، مقتدر قوتیں چاہیں تو یہ معاملہ فوری حل ہو سکتا ہے ،اگریہ مر حلہ فوری طور پر خوش اسلوبی سے طے ہو جائے توامید ہے کہ آگے کی راہیں بھی نکلتی چلی جائیں گی ۔
وطن عزیز کی سیاسی تاریخ مذاکرات عمل کی بدولت مشکل ترین بحرانوں کے خاتمے کی متعدد مثالوں کی شاہد ہے

،اگر اس باب میں اب بھی سنجیدہ پیش رفت کی جائے تو مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، یہ محاذ آرائی کا نہیں، مکالمے کا وقت ہے، تاکہ شفاف الیکشن اور پرامن انتقال اقتدار کی راہ ہموار کی جاسکے،اگرسول سوسائٹی کے ساتھ مقتدرحلقوں کی سپورٹ مل جائے تو انشا اللہ نہ صرف مفاہمت کی راہ نکل آئے گی،بلکہ پاکستان دوبارہ جمہوریت اور سیاسی استحکام کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں