ہم کہاں کھڑے ہیں !
اس وقت ملک ہمہ جہت بحرانوں سے نبر آزما ہے ،ایک طرف سیاسی بحران کی سنگینی ہے تو دوسری جانب معاشی بدحالی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،اس پر اداروں کی اندرونی کشمکش کا ایک نیا بحران سامنے آرہا ہے ،اس حوالے سے چہ مگوئیاں تو پہلے سے ہی کی جارہی تھیں ،مگر اب اداروں کی تقسیم کی واضح لکیر سامنے نظر آنے لگی ہے ،اس صورتحال میں ضرورت خلیج پاٹنے کی ہے
،مگر یہ جن کی ذمہ داری ہے ،وہ اپنی ذمہ داریوں سے مکمل غافل نظر آتے ہیں،جبکہ عوام بے یقینی کی کیفیت میں سب کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟اس حقیقت کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ ملک یک بعد دیگرے جن بحرانوں سے دوچار ہے ،اس کی بنیادی وجہ سیاسی بحران ہے ،اس کا آغاز ایک سال قبل ایک حکومت کی رخصتی اور دوسری حکومت کے قیام سے ہوا تھا ،حکمران اتحاد کے آنے کے بعد سے جو روش اپنائی گئی ہے ،اس نے مذاکرات کی ساری راہیں مسدود کردی ہیں ،
اس سے قبل ہر معاملہ افہام تفہیم سے ایوانوں میں حل کرلیا جاتا تھا ،مگر اب عدالتوں کے ذریعے طے کیا جانے لگا ہے ،سیاسی تنازعات کی بھر مار سے اعلی عدلیہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہے اور اب عد لیہ کے اندر سے بھی اختلافی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں ،سیاسی قیادت کی محاذارائی کے اثرات اب اداروں کی کار کردگی کو بھی متا ثر کرنے لگے ہیں ،ایسے میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو گریٹ ڈیلاگ کا خیال آیا ہے ، وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک کے سارے سٹیک ہو لڈر مل بیٹھیں تو سیاسی ومعاشی بہتری کے ساتھ عوامی مشکلات کے حل کی بہتر راہیں بھی نکل سکتی ہیں۔
اگر چہ وزیر داخلہ کی بہت دیر بعد ہی سہی ،مگرگریٹ ڈیلاگ کی تجویز بری نہیں ہے ،مگراس میں سب سے اہم مسئلہ ہے کہ ایسے مذاکرات کا انعقاد کون کرے گا،جبکہ سبھی سٹیک ہو لڈر پر سیاسی قیادت عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہے ،اس سے قبل اہم ریاستی ادارے سیاسی بحرانوں وقت سے پہلے ہی تصفیے کی جانب موڑ دیا کرتے تھے ،تاہم سیاسی معاملات میں ثالثی کا خمیازہ اداروں کو اپنی ساکھ متنازع بنا دیے
جانے کی صورت میں نکلا ہے ،اس کے بعد عزم کیا گیا کہ ادارے سیاسی معاملات سے دور رہیں گے ،سیاسی قیادت اپنے مسائل خود حل کرے گی ،مگر ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے سیاسی قیادت اپنے معاملات سلجھانے سے عاری ہے ،اس لیے ایک بار پھر ریاستی اداروں کی جانب ہی دیکھا جارہا ہے کہ ملک کی انتہائی بگڑتی صورت حال میں اپنا اہم کر دار ادا کرنے کیلئے آگے آئیں گے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاسی قیادت کو ادھر ادھر دیکھنے کے بجائے اپنے معاملات سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر حل کرنے چاہئے
،لیکن اس کے برعکس ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں سبقت لینے کی کوشش کی جارہی ہے ،اتحادی حکومت اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتی ،جبکہ اپوزیشن اسے اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتی ہے ،اس سیاسی محاذ آرائی میں ملک کا بٹھہ بیٹھتا جارہا ہے ،لیکن سیاسی قیادت ریاست بچانے کے بجائے اپنی سیاست بچانے میں لگی ہوئی ہے ،اس نازک صورت حال کے پیش نظر فکر مند طبقات کی جانب سے گریٹ ڈیلاگ ، اے پی سی سمیت متعددتجاویز پیش کی گئیں ۔مگر سیاسی قیادت کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے
،اگر ایک فریق نے مزاکرات کی دعوت دی تو دوسرے نے ٹھکرادی ،اگر دوسرے نے مل بیٹھنے کا عندیہ دیا تو پہلے نے رد کر دیا ہے ،ہماری سیاسی قیادت کو اپنی ضد واَنا سے باہر نکلتے ہوئے باور کرنا ہو گا کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی ریاستی گاڑی کے دو پہئے ہیں ،ان کے باہم مل کر چلنے ہی سے گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے ۔
دنیا بدلتے وقت کے ساتھ چلتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اور ہم ایک دوسرے سے دست گریباں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب جارہے ہیں ،ہم زبانی کلامی جمہوریت اور جمہوری رویات کادرس دیتے ہیں ،مگر عملی طور پر جمہوری رویات سے بالکل عاری ہیں ،ہمارے سیاستدانوں اور اداروں کے طرز عمل اور انداز فکر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارے نظام کو استحکام اور صحیح جمہوریت حاصل کرنے کے لئے ابھی کافی مدت درکار ہے ،اگرہم الیکشن سے راہے فرار اختیار کرنے کے بجائے ثابت قدمی سے ایک کے بعد دوسرا الیکشن کراتے رہیں گے اوردارے اپنی حدود نہیں پھلانگیں گے تو ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا
،یہ ملک سب کا ہے اور ہم سب نے مل کر ہی اسے آگے بڑھانا ہے ،اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر ہم بحرانوں میں پھنستے ہی رہیں گے، ہمارے اندرہزاروں سوالات بھی اُبھرتے رہیں گے ،رنجشیں‘ کدورتیں اور غلط فہمیاں بڑھتی رہیں گی، اختلافات دشمنیوں میں بدلتے رہیں گے اور ہم مایوسی سے وطن کی پیشانی پر چمکتے ہوئے بے شمار ایسے حساس سوالات کو تکتے رہیں گے کہ جس کا حاصل پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔