36

حکومت نے عوام کو لائنوں میں لگا کر درجنوں زندگیاں چھین لیں

حکومت نے عوام کو لائنوں میں لگا کر درجنوں زندگیاں چھین لیں

تحریر میاں افتخار رامے

حکومت نے عوام کو لائنوں میں لگا کر درجنوں زندگیاں چھین لیں میں فارغ بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ زندگی نے جو سبق دیا وہ کتابوں میں نہیں۔ جو کتابوں میں پڑھا ایسا کچھ زندگی میں نہیں۔ نا قائد اعظم کے چودہ نکات ، نا اکبر بادشاہ ، نا الجبرا ، نا مسٹر چپس ، نا سطح مرتفع پوٹھوہار اور نا ہی وہ پاکستان جو گندم کی پیداوار میں ساتواں خود کفیل ملک ہے۔ سوچنے لگا کہ اپنے اساتذہ سے پوچھوں کہ آپ نے جو پڑھایا وہ صحیح تھا۔

جب استاد کا دروازاہ کھٹکھٹایا تو آواز آئی کہ وہ مردم شماری کے لئے گئے ہیں۔ دوسرے استاد کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سکول کے بعد ڈینگی مہم کی میٹنگ میں ہیں۔ تیسرے استاد کی طرف گیا تو پتہ چلا وہ پولیو مہم پر ہیں۔ پھر ایک استاد یاد آیا کہ وہ اس وقت گھر پر ہوں گے۔ انکے گھر پہنچا تومعلوم ہوا کہ 3 گھنٹے ہو گئے وہ آٹا لینے گئے واپس نہیں آئے۔ پاکستان میں اتنے برے حالات ہیں کہ پاکستان جو گندم کی پیداوار میں ساتواں خود کفیل ملک تھا وہاں آٹا لائنوں میں لگ کر مل رہا ہے۔ پاکستان اس وقت شدید ترین مہنگائی اور بے روزگاری کی لپیٹ میں ہے۔ ملک میں مہنگائی کا 52 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے

۔ پاکستان میں تقریبا 40 فیصد لوگوں کو صرف ایک ٹائم کا کھانا مشکل سے ملتا ہے۔ پاکستان کے قومی ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے مطابق عمومی کنزیومر پرائس انڈیکس کے اعتبار سے مہنگائی میں جنوری 2023 تک گذشتہ برس کے مقابلے میں 27.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بنیادی وجہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں، سرکاری اداروں کو بھاری سبسڈیز سمیت دیگر اقتصادی غلط فیصلوں اور گورننس کے متعدد مسائل کی وجہ سے ہم اس صورتحال تک پہنچے ہیں۔

ملک اس وقت مہنگائی کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کا بھی شکارہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 1972 کے بعد پہلی بار اتنی بلندی پر پہنچی ہے۔ ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں لیکن بکاؤ میڈیا سب اچھا ہے کی گردان کر رہا ہے۔ کراچی میں دو ہزار روپے کی امدادی رقم حاصل کرنے کے لیے 12 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس افسوسناک واقعے سے لگتا ہے کہ پاکستان میں انسانی جان کی قمیت صرف دو ہزار روپے ہے۔
سیاست دان اپنی لڑائیاں لڑ رہے ہیں ملک اور عوام کی کسی کو پرواہ نہیں۔ پاکستان گندم پیدا کرنے والا ساتوں بڑا ملک ہے لیکن یہاں اٹا خریدے کے لیے لائینوں میں لگنا پڑتا ہے۔ آٹا خریدنے کی اس دوڑ میں گزشتہ دس دنوں میں درجنوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ امریکہ اور بنگلہ دیش میں مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی گئی۔

یورپ کے دیگر ممالک میں بھی مسلمانوں کو ریکارڈ ریلیف فراہم کیا جارہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں ماہ صیام کے دوران گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے مرنے کے لیے مفت آٹا کے نام پر لائنوں میں کھڑا کردیا ہے۔ موجودہ حالات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی چیزیں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں اور لوگوں نے یا تو وہ خریدنی چھوڑ دی ہیں یا ان کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔
بھوک، افلاس، فاقہ کشی کا منظر، بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ صورتحال میں پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی عوام کی مشکلات و پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے۔ مملکتِ خداداد کی عوام جس صورتحال سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ حکومت اداروں کو منظم کرنے میں مکمل ناکام ہے۔

حکومت کی جانب سے چلائے جانیوالے اداروں کو غیر ملکی سرمایہ داروں کو بیچا جارہاہے۔ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرکے اشیائ￿ کو مہنگا کردیا جاتا ہے۔ اجارہ داری کے منصوبوں کے تحت کمیشن لے کر ڈیل کی جاتی ہے اور آخر میں تمام بوجھ عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ وجہ بھی مہنگائی اور غربت میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
پاکستان 70 سالوں سے مہنگائی میں مسلسل ترقی کررہا ہے اور مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ ا?ج ملک میں جس سے بھی پوچھو وہ یہی رونا روتا ہے کہ مہنگائی نے کمر توڑدی ہے۔ ہمارے ملک کے وزیر خزانہ اسحاق ڈارچند دن بعد ٹی وی پر آکر وہ ہی پرانا رٹا رٹایا جھوٹ بول دیتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری آئی ہے۔ لیکن حققیت یہ ہے کہ ا?ل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کا پچاس فیصد حصہ بندش کے دھانے پر پہنچ گیا ہے

۔ اپٹما کے پیٹرن انچیف گوہر اعجاز نے وزیراعظم پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ٹیکسٹائل برآمدات تیزی سے اور مستقل کم ہو رہی ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔خیال رہے کہ دنیا بھر میں جب بھی حکومت کی جانب سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے تو عوام کی سہولتوں اور تنخواہوں میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔پنجاب حکومت نے میرے چند دن پہلے شائع ہونے والے کالم سے یہ تحریر پڑھ کر مزدور کی کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے ماہانہ تو مقرر کردی جو پہلے 25ہزار روپے تھی۔ لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا جائے۔ ایسا نا ہو کہ یہ اضافہ صرف کاغذی کارروائی تک ہی محدود ہو کر رہ جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں