انڈین گرانڈ مسجد کیلیکٹ کیرالہ
نقاش نائطی
۔ +966562677707
کانتی پورم استاد مشہور داعی اسلام مفتی اعظم کیرالہ اے پی ابوبکر مصلیار کی محنت و جانفشانی سے تعمیر کالکیٹ کی جامع مسجد مرکز علمی شہر (نولیج سٹی)،الیگزینڈرئن، مغل، پرشیئن (ایرانی)، فن تعمیر اور مسجد کے اندر، ترکش خطاطی سے لکھے قرآنی آیات کے ساتھ، دین اسلام کے چار امام کے نام سے چار مرکزی دروازوں پر مشتمل، بیک وقت 25 ہزار مصلیوں کو ایک ساتھ نماز پڑھنے کی سہولت والی،
یہ عالیشان مسجد، نہ صرف کیرالہ کالیکٹ، بلکہ بھارتیہ مسلمانوں کے لئے تفخر و امتیاز مانند یے۔ اس مسجد کی خصوصیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اسے، وقت کے کسی بادشاہ یا شہنشاء نے، بے دریغ روپئیے پیسے خرچ کر تعمیر نہیں کیا ہے، بلکہ کیرالہ سمیت بھارت کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے دلوں پر راج کرنے والے عام سے مدرس، مفتی کیرالہ نے، اپنے اثر رسوخ سے عوام کے ملے چندے سے یہ عالیشان مسجد تعمیر کی ہے
عام طور پر ایسی عالیشان تعمیرات پر منفی سوچ رکھنے والوں کی دلیل “یہی سرمایہ قوم کی تعلیم پر خرچ کیا جاتا تو اچھا ہوتا” کیرالہ کی اس مسجد کو مشتشنی اس لحاظ سے قرار دیا جاسکتا ہے کہ، کیرالہ بھارت کی اکلوتی ریاست ہے جہاں کی رعایا، تقریباً صد فیصد تعلیم یافتہ تصور کی جاتی ہے۔ اور اس مسجد کے تعمیر کرنے والے ابوبکر مصلیار کی طرف سے، نہ صرف پورے کیرالہ، بلکہ قرب وجوار پڑوسی ریاستوں میں بھی، دینی و عصری تعلیمی اداروں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ پھر بھی دل میں یہ خواہش انگڑائی ضرور لیتی ہے
کہ کاش ابوبکر مصلیار مدظلہ نے، بھارت کے غریب و پس ماندہ مسلمانوں کو دینی و عصری اعلی تعلیم دلواتے ہوئے، اس سنگھی مودی یوگی مسلم منافرتی دور حکومت میں، جہاں مسلمانوں کو تعلیمی سطح پس ماندہ رکھنے کی سازشوں پر عمل درآمد ہورہا ہے، انہیں اعلی مفت تعلیم دلوانے، کرناٹک چکبیلاپور میں قائم شری مدھو سودھن سائی انسٹیٹیوٹ میڈیکل سائینس اینڈ ریسرچ سینٹر کے ماتحت قائم، 400 بیڈ والے فری ہاسپٹل ہیلتھ سہولیات اور فری تعلیم دیتے، ایم بی بی ایس، ایم ایس، اور ایم ڈی میڈیکل کالج قائم کئے
جیسا،کوئی اعلی تعلیمی مرکز یا تعلیمی یونیورسٹی، کیرالہ میں قائم کی جاتی تو، یقینا مستقبل قریب میں بھارتیہ مسلمانوں پر تنگ ہوتے، سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی ایک حد تک دور کی جاسکتی تھی۔ اب بھی المحترم ابوبکر مصلیار مدظلہ اس سمت فکر و تدبر کریں تو عرب ممالک، کئی ایک شیوخ سے انکے بہتر تعلقات کو دیکھتے ہوئے، اور خلیجی ممالک مصروف تجارت،لؤ لؤ ہائپر مارکیٹ چین، نیسٹو ہائیر مارکیٹ چین ،سٹی فلؤر ہائپر مارکیٹ چین، گرینڈ مارٹ ہائیر مارکیٹ چین جیسے متعدد بڑے تاجر گھرانوں سے، ان کے اچھے تعلقات کے چلتے، یہ ناممکن دکھائی دیتا “طبی و مہندسی (انجینیرنگ) اعلی تعلیمی آگہی منصوبہ” اگلے دس پندرہ سالوں میں شرمندہ تعبیر ہوتا ہم پاسکتے ہیں
شری مدھو سودھن سائی انسٹیٹیوٹ میڈیکل سائینس اینڈ ریسرچ مغل حکمرانی میں بھارت اپنی آعلی تعلیم و ثقافت و تجارتی تفکر سے اپنی “27فیصد جی ڈی پی” کے ساتھ عالم کا سب سے آعلی تعلیم یافتہ و تجارتی “سونے کی چڑیا” مشہور ملک تھا جسے انگریزوں نے اپنے 190 سالہ دور حکومت میں،نہ صرف ملکی رئسورسز کو لوٹ لوٹ کر، بلکہ زوال خلافت عثمانیہ عالمی تناظر میں،بھارت کی اپنے وقت کی حکومت کرنے لائق قوم مسلم کو،دانستہ سازش کے تحت، اعلی تعلیم سے ماورا رکھتے ہوئے،
وقت آزادی ھند سب سے پس ماندہ پچھڑئ قوم کے طور انہیں چھوڑا تھا۔ اس پس منظر میں جنگ آزادی ھند کے کانگرئس وقت کے بڑے مسلم لیڈر، اس وقت جواہر لال نہرو سے اپنی قریبی تعلقات خاص کے چلتے،آزاد بھارت کی پہلی کابینہ میں، مولانا ابوالکلام آزاد، کوئی بھی اچھی سے اچھی وزارت حاصل کرسکتے تھے، لیکن ان کی دور اندیشی ہی تھی کہ انہوں نے وزارت تعلیم اپنے تابع لیتے ہوئے، اپنے ملکی محدود وسائل باوجود، دیش بھر میں سرکاری اسکول و کالجز یونیورسٹیس، آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم ، اعلی تعلیمی مراکز قائم کرتے۔ہوئے
، پس ماندہ چھوڑی بھارتیہ عوام کو کانگرئس کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں سے، اتنا اعلی و ارفع تعلیم یافتہ کر چھوڑا کہ، آج عالم کے سو دیڑھ سو ملکوں میں اس وقت اپنی اعلی تعلیم حاصل کئے کمانے گئے، بھارت واسیوں نے، اپنی کمائی زرمبادلہ بھارت بھیجتے ہوئے اور اسی کے دہے میں عرب کھاڑی ملکوں میں برسنے والے پیٹرو ڈالر من و سلوی سے، انیک غریب و پس ماندہ ملکوں کے ساتھ بھارت بھی ترقی پزیری کے مدارج طہ کرتا، آج عالم کی حکمرانی دعوے داری میں انیک ملکوں سے آگے ہم پاتے ہیں
جہاں برہمن اور اقوام کے مندر ٹرسٹوں نے اعلی تعلیمی مراکز قائم کرتے ہوئے، اپنی اپنی اقوام کو اعلی تعلیم سے مزین کیا ہے، علیگڑھ تعلیمی ادارے طرز، سو سال قبل قائم کئےانجمن حامی المسلمین بھٹکل، انجمن اسلام ممبی و انجمن اسلام پونا، سمیت دیش بھر میں،اس وقت قائم، مسلم تعلیمی اداروں نے، مسلم قوم کو تعلیم دلوانے، اعلی تعلیم ادارے قائم کرنے کی طرف اتنی توجہ نہیں دی ہے جتنی کی ضرورت تھی۔ جبکہ ہم مسلم قوم کی بے توجہی ہی کے سبب، مغلیہ دور کے مساجد و درگاہ کمیٹیوں ٹرسٹوں کے نام، وقف کی گئی
ہزاروں کروڑ کی جائیدادیں، اکثر و بیشتر مرکزی و ریاستی حکومتوں کےزیر استعمال ہیں یا مسلم ٹرسٹیان سے ملی بھگت کے ساتھ ان مسلم اوقاف املاک پر غیر مسلم قابض ہوچکے ہیں ان میں کئی ہزاروں کروڑ والی وقف زمین، بھارت کے امیر ترین امبانی ایمپائر رہایشی عیش کدہ تعمیر کے لئے، کوڑیوں کے دام بیچی جاچکی ہیں۔ کاش کہ 16% کرناٹک آبادی تناسب والی لنگایت قوم، اپنے مندر ٹرسٹ اعلی تعلیمی ادارےجال بچھاتے ہوئے،
اپنی قوم کو اعلی تعلیم دلواتے ہوئے، وہ کرناٹک پر اپنی ریاستی حکومت قائم کرنے ہمیشہ آگے پائی جاتی ہے۔ اور اوقاف املاک اعتبار، مالدار ہم 20% مسلم قوم صرف ایک منسٹری حاصل کرنے کی دوڑ میں ہی مست و مگن پائے جاتے ہیں آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت قوم مسلم کو اعلی تعلیم دلوانا ہے۔ بھارت بھر کے مسلم لیڈران، مختلف سیاسی پارٹیوں کے وفادار بننے کے چکر میں، اغیار سے زیادہ وہ اپنے آپ کو سیکیولر ثابت کرتے، مسلم مفاد خلاف جاتے پائے جاتے ہیں۔ کاش کہ مسلم قوم کے اہل تدبر و تفکر کسی بھی سیاسی سیکیولر پارٹی وفاداری کے بجائے، مسلم مفاد مقدم رکھنے والے،علاقائی مسلم قیادت مضبوط کرنے کی فکر کریں
تو قوم مسلم کو اگلے چند برسوں میں ہی سیاسی، معاشرتی،معشیتی طور مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ ہزاروں کروڑ کے مالک مسلم تونگر حضرات کسی بھی وقت، صدا چھوڑ جانے والی اس دنیوی زندگی بعد، اپنی بے تحاشہ دولت، اولاد کی تعیش پسندی کے لئے چھوڑ مرنے کے بجائے،اپنے جیتے جی، کم از کم ایک تہائی اپنی دولت،قوم مسلم کو، مفت یا مناسب اجرتی، اعلی عصری تعلیم دلوانے، تعلیمی ادارے، ترسٹ قائم کر، اس دنیا سے چلے جائینگے
تو تاقیامت آنے والی انسانیت، اس سے بہرور ہوتے، انکی عاقبت بھی روشن کرتے، بعد محشر جنت کے اعلی ترین مقام و رتبہ کا انہیں اہل بناسکتی ہے۔ 1444 سال قبل، حضرت عثمان غنی رض کا اپنے ہیسے سے، پانی کا کنواں خرید کر مدینہ کے لوگوں کے لئے وقف کیا اوقاف ادارہ، آج 1444 سال بعد بھی، عثمان غنی اوقاف کے نام نامی سے چلتے آریے، ہزاعوں لاکھوں کروڑ کی املاک سے، ان کے بعد محشر درجات بلند کرتا پایا جارہا ہے۔ وما علینا الا البلاغ