52

طالبعلم بچوں کی سچی اور کڑوی فریادیں

طالبعلم بچوں کی سچی اور کڑوی فریادیں

تحریر: طاہر محمود آسی

پاکستان ایک خداداد مسلم ریاست ہے، اس کی بنیادوں میں ہمارے آباواجداد کا لہو ہے- سرسید احمد خان، علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح رح اس کے عظیم بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں ، یہ لوگ مملکت کے حصول کے لئے نہایت مخلص اور وفادار تھے- ان کی مخلصی پر ہر کسی کو اعتبار اور اعتماد تھا- قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اس کے پہلے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف لیا- قوم کو قائد اعظم کی وفاداری محبت اور خلوص پر اس قدر یقین تھا

کہ ہر کوئی آپ فرمان اور قول و حکم کو حصہ ایمان سمجھ کر بجا آور ہوتا تھا- کسی قسم کی حکم عدولی اور کاہلی کو گناہ عظیم تصور کیا جاتا تھا- فاتح عالم قوموں اور لوگوں کا یہی دستور ہوتا ہے- یہی وجہ تھی کہ ملک و قوم ترقی و کامرانی کی طرف رواں دواں تھی ، الیکشن ہر کٹھن عمل سے گزرنے کو بھی سعادت سمجھتی تھی، حصولِ منزل کے لئے سختیوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنا ان لوگوں کا وطیرہ بن چکا تھا- اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قومیں اسی طرح بنتی ہیں اور پختہ یقین و عمل کو حاصل کرتی ہیں

لیکن دور حاضر میں تبدیلی اس قدر رنگ پکڑ چکی ہے کہ قوم کے کسی فرد کو کسی پر بھی کوئی یقین و اعتبار نہیں رہا ہے- حکمرانوں اور خصوصی طور پر سیاست دانوں پر ذرہ برابر بھی پاکستان کے کسی طبقے کو اعتماد نہیں ہے کیونکہ قول و فعل میں بڑاتضاد اور نگاہِ نفاق واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے- حسن عمل اور کارکردگی نے کردار و عمل پر کاری ضرب لگائی ہیں- آج کی نسلِ نو پر بہت برا اثر پڑا ہے

سوشل میڈیا نے ہمارے طالب علم کو بہت زیادہ پریشان اور بے ہنگم کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے – آج کا طالب علم کیا سمجھے گا کہ ہمارے اہل اقتدار بے عمل، غافل ، غلیظ ، جھوٹے اور مکار ہیں؟ ۔۔۔۔ بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ آج کا طالب علم حکمرانوں اور اقتدار سے لپٹے تمام طبقہ کو بے عمل اور جھوٹا تصور کر رہا ہے کیونکہ ہر دوسری خبر ان لوگوں کے کردار و عمل کو داغدار کر رہی ہے- ہر کوئی اپنے قاعدے اور فائدے کے مطابق بہتر باتوں کی تشریح اور مطلب بیان کرتا ہوا نظر آ رہا ہے

ادب آداب کا تو خوب جنازہ نکل رہا ہے بلکہ پڑھا جا رہا ہے، وطن عزیز پاکستان کے مطلب کو اچھی طرح سے خاک میں ملانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے ، بقول

بد نام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا
شرم ہم کو مگر نہیں آ رہی ہے

چھوٹے چھوٹے نہ بننے کے سیاستدانوں کو اچھا اور برا بول رہے ہیں، نفرت کے جذبات مکمل عروج پر ہیں- منافرت کی کالی گھٹائیں اور تند و تیز ہوائیں آج کی نسلِ نو کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہیں- سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ۔۔۔۔ ہمارے لئے کیا ہو رہا ہے ؟۔۔۔۔ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟۔۔۔ ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل کیسا ہوگا ؟۔۔۔

اے میرے ہم وطنو ! کوئی ہے جو ہمیں سمجھا پائے ؟ کوئی ہے جو ہمیں یقین دلائے کہ ہم برباد نہیں ہو رہے ہیں اور ہمارے ضمیر مردہ نہیں ہو چکے ہیں ؟۔۔۔۔

اے لحمِ انساں کے سوداگرو ! ظالمو ! ذرپرستو ! ہم پر رحم کرو خوف خدا کھاؤ ۔۔۔۔ اے میرے پروردگار ہم تیری رحمت سے نا امید نہیں ہیں، اے میری مملکتِ خدا داد انشاءاللہ جلد دن پھریں گے ۔۔۔ بقول شاعر

دن پھریں گے تیرے میرے غم نہ کر
مر مٹیں گے سب اندھیرے غم نہ کر

اک نہ اک دن لازم ہوگی روشنی
ہم چلیں گے ساتھ تیرے غم نہ کر

ذرا سوچئے تو ! سیاست جھوٹ بول رہی ہے، عدالتیں مبہم انصاف کر رہی ہیں ، انتظامیہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون استعمال کر رہی ہے ، علماء ظالموں کے نرغے میں ہیں اور قوم کے سب بچے قرضے میں ہیں – کیا ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہ گئے ہیں کیا کوئی اس امید باقی ہے ہمارے بچے ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہمارے سیاستدان جھوٹے ، ہمارے آفیسر مکار رشوت خور، ہمارے لیڈر زرپرست اور ہمارے ڈاکٹر ظالم اور جابر ، ہمارے اہل اقتدار عیاش اور فحاش اور فقیر پتہ نہیں ہم اپنے بچوں کی نظر میں کیا کچھ بن چکے ہیں- اچھا ہمارے بچے فریادی ہیں کہ ہمیں ایسے ملک میں نہیں رہنا ہے، ظالموں اور جابروں کا ظلم نہیں سہنا ہے، ہمیں باہر بھیجو ،ہم یہاں نہیں رہیں گے- اف اللٰہ ہائے اللٰہ اپنی جناب سے فضل و کرم کی برسات کر دے اور اس اجڑے ہوئے گھر کو آباد کر دے

اٹھ از سرِ نو دہر کے حالات بدل ڈال
تدبیر سے تقدیر کے دن رات بدل ڈال

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں