عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 44

سیاسی انتشار میں ٹکرائوکا کھیل !

سیاسی انتشار میں ٹکرائوکا کھیل !

پاکستان کی معیشت، سیاست اور امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، اس وقت صرف ایک بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران کم ہونے کے بجائے مز ید بڑھے گا،یہ جتنا گہرا ہو گا، اتنا ہی انتشار بڑھے گا، اتنی ہی بدامنی پھیلے گی ،اس کا سیاسی قیادت ادراک کررہی ہے نہ ہی کوئی فکر کی جارہی ہے ،حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنے حصول مفاد میں سب کچھ دائو پر لگاتی تو نظر آتی ہیں،لیکن ملک کے بگڑتے حالات کی ذمہ داری لینے اور انہیں سنوارنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اس ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت اقتدار میں ہیں ،لیکن اس ابتری کی ایک ذمہ داری بھی خود اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اس سے بڑا مزاق کیا ہو گا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا کئی عشرے راج رہا ،لیکن سارے مسائل کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے،اگر پی ٹی آئی ذمہ دار ہے تو حکمران اتحاد نے اپنے ایک سالہ دوراقتدار میں کو نسی دودھ کی نہریں بہادی ہیں ،

عوام سے ایک وقت کی روٹی بھی چھین لی گئی ہے ،عوام کو مفت آٹے کی جھانسے میں بے موت مارا جارہا ہے ،اس بات کو کوئی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ وفاق میں تین بار اقتدار سنبھالنے اور تین بار وزارت عظمیٰ پر رہنے والی جماعتیں کسی مسئلے کی ذمہ دار نہیں ہیں،اتحادی جماعتیں کل بھی اقتدار میں رہیں اور آج بھی اقتدار میں ہیں ،لیکن سارے مسائل کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر عوام کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہیں ۔کیا یہ کھلی حقیقت نہیں ہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نہ صرف ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی ہیں ،بلکہ ایک دوسرے پر مقدمات بھی بناتی رہی ہیں

،اس میں اب تک کسی ایک کا بھی تصفیہ نہیں ہوسکاکہ سچ کیا اور جھوٹ کیا تھا ، یہ ایک دوسرے پر بنائے جانے والے مقدمات اور الزامات کہاں تک درست یا غلط تھے ،تاہم پیٹ پھاڑ کر لوٹا مال نکالنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوئیدار ایک دوسرے کو اب جس احترام سے مخاطب کرتے ہیں اور جس طرح شیرو شکر مل بیٹھے ہیں ،اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ،یہ اپنے حصول مفاد میں کبھی ایک دوسرے سے دست گریباں ہوتے ہیں

تو کبھی ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں ،ان کی سیاست کا مقصد صرف اقتدار ہے اور یہ حصول اقتدار کیلئے کچھ بھی کر گزر تے ہیں ،انہیں ملک وعوام سے کوئی غرض نہیں ،عوام جائے بھاڑ میں ،عوام جیئے یا مرے ،یہ عوام کے آلاشوں پر بھی سیاست کرکے اپنے حصول اقتدار کو یقینی بنانا پسند کرتے ہیں۔عوام سے کوئی بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے ،عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ادارے بھی بدلتے حالات کے ذمہ دار ہیں ،ایک طرف سیاسی محاذ آرائی ہے

تو دوسری جانب ادارتی فیصلہ سازی کا ٹکرائو ہ جاری ہے ،اس بات کا دونوں ہی احساس نہیں کررہے ہیں کہ اس انتشار میں ٹکرائو کا نتیجہ کیا نکلے گا ،سیاسی انتشار میں ٹکرائو کا کھیل بڑی بے حسی سے کھیلا جارہا ہے جو کہ ملک کو ایک ایسی صورتحال کی جانب دھکیل رہا ہے کہ جہاں اداروں کی حدود، ساکھ، سالمیت اور ان کی حیثیت پر سوالیہ نشان اٹھنے لگیں گے، اگر اداروں پرسے ایک بار عوامی اعتماد اُٹھ گیا

اور اس کی قانونی حیثیت مجروح ہو گئی تو یہ ملک کو ایسی حالت میں ڈال دے گا کہ جہاں اس کا انتظام چلانا ہی ناممکن ہوجائے گا،یہ صورتحال ملک وعوام کیلئے انتہائی خطر ناک ہو گی ،اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سیاسی قیادت اپنے معاملات سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کرے اور ادرے سیاسی معاملات سے خودکو دور رکھیں ،اگر سیاسی قیادت بار بار اپنے معاملات میں اداروں کو ایسے ہی گھسیٹتے رہے

تومعاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے جائیں گے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ موجودہ سیاسی بحران کا جو عدالتی حل ڈھونڈا جارہا تھا، وہ سب ہی کے گلے پڑ گیا ہے ،اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سیاسی قیادت اور ادارے اپنے اندر کی تقسیم کا تدارک کر تے ہوئے دور کرنے کی کوشش کریں ،اس حوالے سے اداروں نے اپنامشاورتی عمل شروع کر دیا ہے ،سیاسی جماعتیںکو بھی چاہئے

کہ اس بڑھتے انتشار میں ٹکرائو کی سیاست کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر آئندہ انتخابات کے حوالے سے ایک نئے میثاق جمہوریت اور انتخابی فریم ورک پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا کریں اور اسے پارلیمنٹ سے آئینی و قانونی جواز فراہم کر نے کیلئے متفقہ قانون سازی کریں،اگر سیاسی قیادت میں آئندہ عام انتخابات کے انعقادپر کوئی اتفاق رائے نہ ہوا تو ملک ایک ایسی انارکی کی لپیٹ میں آجائے گاکہ جس سے نکلناکسی کیلئے بھی ممکن نہیں رہے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں