تصادم میں مفاہمت کیسے ہو گی!
پا کستانی جمہوریت کیلئے مفاہمت اور تعاون کی سیاست ہمیشہ ایک خوا ب ہی رہی ہے ،وزیر اعظم شہباز شریف پی ڈی ایم کے اتحاد کو اس خواب کی تعبیر قرار دیتے ہیں ،مگر کیا پا کستانی عوام بھی ایساہی سمجھتے ہیں ؟ یہ ایک کھلا راز ہے کہ حکمران اتحاد ملک کو سیاسی و معاشی بحران سے نکالنے کیلئے نہیں ،شراکت اقتدار کیلئے قائم ہواہے ،یہ شراکت اقتداراور مفادات جب تک رہیں گے اتحاد بھی قائم رہے گا، جب مفادات نہیں رہیں گے تو حکمران اتحاد بھی قائم نہیں رہے گا، وزیر اعظم کے خوب کی تعبیر سب کے سامنے بکھر تی نظر آئے گی۔
حکمران اتحاد صرف مشترکہ مفادات کے باعث ہی متحد نہیں ،بلکہ اسے پی ٹی آئی قیادت کے خوف نے بھی متحد رہنے پر مجبور کررکھا ہے ،ایک طرف تیرہ جماعتیں اکٹھی ہیں تو دوسری جانب تنے تنہا پی ٹی آئی قیادت ہے کہ جس نے سب کو آگے لگا رکھا ہے ،وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہناہے کہ عمران خان نے ہمارا سب کچھ ختم کردیا ہے،اس کا خاتمہ ہی ہماری ترجیح ہے، ان کے بقول جو بھی ہوجائے عمران خان کا راستہ روکا جائے گا، اسی طرح مریم صفدربھی کہتی ہیں کہ عمران خان کا خاتمہ ہی ان کی سیاسی ترجیح ہے، ایسے میں سیاسی ماحول کو کیسے جمہوری اور سیاسی بنایا جائے گا؟
اس صورت حال میں سوچنے کی بات ہے کہ کیسے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں گے اور کس طرح سیاسی درجہ حرارت کم کیا جاسکتاہے،سیاسی درجہ حرارت کم کر نے کیلئے حکمران اتحاد کو اپنے رویئے میں تبدیلی لانا ہو گی اور مفاہمت میں پہل کرنا ہو گی ،مگر اتحادی حکومت مفاہمت کے بجائے مزحمت کو ہی تر جیح دیے چلی جارہی ہے۔بنیادی طور پر عمران خان کی سیاسی مقبولیت حکمران اتحاد کے لیے خوف کی علامت بن گئی ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو راستے سے ہٹائے بغیر ان کی سیاست نہیں چلے گی،اس لیے عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے کوشش کی جارہی ہے
کہ مختلف اداروں کی مدد سے ان کو انتظامی یا قانونی بنیادوں پر نااہل کیا جائے،اس حوالے سے ایک طرف سیاسی انتقام کا نشانہ بناجارہا ہے تو دوسری جانب کردار کشی کی مہم چلائی جارہی ہے لیکن اس تمام تر حکومتی اور مقتدرہ کی سخت پالیسی کا فائدہ بھی عمران خان کو ہی ہورہا ہے اور ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے مزیدبڑھتی جا رہی ہے، خود عمران خان برملا کہہ رہے ہیں کہ مجھے راستے سے ہٹانے کا منصوبہ موجود ہے اور ان کے پاس سوائے میری مخالفت کے کوئی پلان نہیںہے،تاہم سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کو ہٹاکر ہی موجودہ حکومت کو سامنے لایا گیا تھا،مگرحکومت ایک سال بعد بھی سیاسی اور معاشی محاذ پر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی ہے ،حکومت درپیش بحرانوں پر قابو پانے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے میں ہی لگی ہوئی ہے۔
حکمران اتحاد بنیادی بات سمجھنے سے ہی قاصرہے کہ عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں ہی ممکن ہے اور سیاسی محاذ پر انہیں عمران خان کے خلاف کوئی متبادل بیانیہ بنانا پڑے گا، انتظامی اور قانونی بنیاد پر عمران خان کی نااہلی، گرفتاری مسئلے کا حل نہیں ،بلکہ اس سے مزید مسائل جنم لیں گے،اس لیے انتخابات کی جانب جانا چاہئے، لیکن کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات مسائل کا حل نہیں اور یہ مزید مسائل کو جنم دیں گے،حیرت ہے، اگر جمہوریت میں انتخابات ہی مسائل کا حل نہیں تو پھر اس کا علاج کیا ہے؟
اورکیا ایسا کوئی متبادل نظام ہے، جوکہ انتخابات کے برعکس ہوسکتا ہے؟ قومی حکومت، ٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لا ء ،کیا سارے مسائل کا حل ہیں؟ اور کیا انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرکے سیاست اور جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے؟ دو صوبائی انتخابات کی بات تو ایک طرف رکھیں، یہاں یہ منطق بھی دی جارہی ہے کہ اکتوبر میں بھی عام انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔حکمران اتحاد کب تک انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتے رہیں گے،آج نہیں تو کل انہیں عوام کی عدالت میں جانا ہی پڑے گا ،تاہم اتحادی حکومت کی کوشش ہیں کہ جب تک پی ٹی آئی قیادت راستے سے ہٹ نہیں جاتی اور اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آ جاتی ،عوام کی عدالت میں جانے سے گریز کیا جائے ،لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا