آڈیو لیکس کا کھیل کب تک؟
ملک انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے ،لیکن حکمران ملک کو گھمبیر صورت حال سے نکالنے کے نجائے آئے روز ایک نیا کھیل تماشا شروع کردیتے ہیں ،پا کستانی سیاست میں انتخابات ہو نے نہ ہونے کا کھیل ابھی جاری تھا کہ ایک مرتبہ پھر آڈیو لیکس کا کھیل شروع کر دیا گیا ہے ، اس بار سیاسی شخصیت کے بجائے چیف جسٹس کی ساس اور ایک وکیل طارق رحیم کی اہلیہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیک کی گئی ہے،اس میں جسٹس کی ساس اپنے داماد کے بارے میں باتیں کر رہی ہیں،
اس آڈیو کے لیک ہوتے ہی مسلم لیگ( ن) والوں نے شور مچا دیا ہے کہ چیف جسٹس کو استعفیٰ دینا پڑے گا،لیکن اس آڈیو لیک کی اخلاقی حیثیت اور اس کی بلیک میلنگ پر کوئی بات نہیں کررہا ہے، یہ بلیک میلنگ کا گھنائونا کھیل ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا ، اس گھنائونے کھیل کے خلاف ملک کے سنجیدہ طبقات کو پرُزورآواز اٹھانا ہو گی۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تسلسل سے اہم سرکاری عہدیداروں‘ سیاستدانوں‘ ججوں اور ان کے عزیز و اقارب کی محفوظ اور عام ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو منظر عام پر لائی جا رہی ہے،لیکن اس ریکارڈنگ کو کوئی جرم سمجھ رہاہے نہ معیوب اور نہ ہی باعث شرم خیال کیا جارہا ہے،
الٹا جن کی نجی زندگی میں غیر آئینی‘ غیر قانونی‘ غیر اخلاقی داخل اندازی کی جاری ہے، انہیں ہی مورد الزام بھی ٹھہرایا جارہا ہے، آڈیو لیکس ہوتے ہی ایک شور برپا ہو جاتا ہے ، لیکن اس ملک میں کوئی آڈیو ،ویڈیو لیکس پر پو چھنے والا ،کوئی تحقیق و تفتیش کرنے والا دکھائی نہیں دیتا ہے کہ ریکارڈنگ کس نے کی؟ کس قانون اور جواز کے تحت کی اوراسے لیک کرنے والا کون ہے؟ یہ سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں ،لیکن ان کے جوابات کی جستجو میں کہیں سنجیدگی دکھائی نہیںدیے رہی ہے۔
اس ملک میں ایک عر صے سے آڈیو ویڈیو لیک کا گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے ،لیکن سب خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں ،ایک دوسرے کی تزلیل کا مزہ لے رہے ہیں ،لیکن اس کی روک تھام کیلئے کوئی موثر اقدام نہیں اُٹھارہے ہیں ،ایک طرف اصلی نقلی کی تکرار ہے تو دوسری جانب مطالبات کا شور برپا ہے ،اگر ایک لمحے کے لیے فرض کر لیا جائے کہ تازہ آڈیو اصل ہے تو اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے
کہ بیگم ماہ جبین نون اپنے داماد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے حوالے سے فکر مند ہیں‘ وہ ان لاکھوں لوگوں کی طرح جو چیف جسٹس سے درست فیصلہ کرنے اور ہر طرح کے دبائو کے سامنے ثابت قدم رہنے کی دعا کر رہے ہیں،وہ بھی دعا گو ہیں ،انہوں نے موجودہ سیاسی صورتحال پرجو گفتگو کی ہے، ایسی گفتگو ہر گھر میں پڑھے لکھے مرد و خواتین آئے روز ہی کرتے رہتے ہیں، اس آڈیو میں کوئی ایسی بات سننے کو نہیں ملتی ہے
کہ جس پر حکمران اتحاد اتنا واویلا کررہا ہے ،لیکن آڈیو ریکارڈ کرنے اور لیک کرنے والوں کے خلاف خاموش ہے۔حکمران اتحاد کا واویلا بے جا نہیں ہے ،انہیں اپنی مرضی کے جج چاہئیں ،جوکہ ان کے حق میں فیصلے کریں اور ان کے مفادات کی آبیاری کریں ،انہیں جب اپنے حصول مفاد میں خدشات نظر آنے لگتے ہیں تو بلیک میلنگ کیلئے آڈیو ،ویڈیو لیکس کا سہارا لیا جاتا ہے ،یہ لوگ جو آج اچھل کود کررہے ہیں کچھ عرصہ قبل رانا ثناء اللہ ، مریم نواز کی آڈیو ریکارڈنگ پر ناراض تھے اور عمران خان اس ریکارڈنگ کو جائز قرار دیے رہے تھے،ا ب پی ٹی آئی والے آڈیو لیک پر چراغ پا ہیں
،لیکن اس کا ذر کرتے سب کے ہاتھ اور زبان جلتی ہے ،اس لیے جانتے بوجھتے کوئی نشاندہی کرتا ہے نہ ہی آواز اُٹھاتا ہے اور نہ ہی بتاتا ہے کہ کون شریک کار ہے ،بلکہ خوشامدانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے سب ہی اپنے بچائو میں یقین دلانے کی کو شش کرتے ہیں کہ وہ سیاست اور سیاسی کھیل سے لا تعلق ہو چکے ہیں ،انہیں سیاست سے لا تعلق قرار دینا نہایت ہی بھونڈا مذاق ہے،لیکن یہ مذاق نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کرنا سب کی مجبوری بن چکاہے ،
تاہم اس سلسلے کو روکنے کے لیے سب کو ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا، لیکن یہ ْمتفقہ لائحہ عمل اکھٹے مل بیٹھنے سے ہی طے ہو گا ،جو کہ کہیں دور تک طے ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے،اس صورتحال میں دیکھنا ہے کہ وطن عزیز میں آڈیو اور ویڈیولیکس کا کھیل کب تک ایسے ہی چلتا رہے گااور ہر کوئی ایک دوسرے کی باری پر ایسے ہی دیوانہ وار بغلیں بجاتا رہے گا۔