درست راستے کا انتخاب ! 50

مذاکرات ہی بحران کا حل ہیں !

مذاکرات ہی بحران کا حل ہیں !

ملک جس سیاسی و آئینی بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس میں ہر لمحہ نئی تبدیلی اور پیش رفت سامنے آرہی ہے،حکومت اور اپوزیشن جو ایک دوسرے کودیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے،سپریم کورٹ کی ہدات پر مل بیٹھے ہیں ، انہیں گزرتے وقت کے ساتھ جہاں زمینی حقائق ادراک ہو رہا ہے ،وہیں ان پر حالات کی سنگینی اور باریلی بھی اشکار ہوتی چلی جارہی ہے ،اس مذاکراتی عمل کے آغاز کو برف پگھلنے سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے ،مگر ملک و قو م کو حقیقی خوشی تبھی ہو گی کہ جب سیاسی فریقین میں اتفاق رائے کی نوید سنائی جائے گی ۔
گزشتہ ایک سال سے سیاسی قیادت نے جس طرح باہمی مذاکرات اور سیاسی افہام و تفہیم کی روش سے گریز کیا ہے ،اس کاہی نتیجہ ہے کہ ملک بحران در بحران کا شکار ہو تا چلا جارہا ہے ،اگر سیاسی قیادت سارے معاملات کوپہلے سے ہی مذاکرات کی میز پر سلجھانے کی کوشش شروع کر دیتیںتونہ صرف سیاسی و معاشی معاملات کو بر وقت سنبھالا جاسکتا تھا ،بلکہ سارے معاملات کو باہمی مشاورت سے سلجھایا بھی جاسکتا تھا

،لیکن سیاسی قیادت کی اَنا و ضد کے باعث جہاںملک بحرانوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا ، وہیں عوام بھی نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں ۔سیاسی قیادت کو ملک کی کوئی پرواہ ہے نہ عوام کا کچھ خیال ہے ،یہ حصول اقتدار میں دست گریباں ہیں اور سیاسی معاملات سیاسی انداز میں ھل کرنے کے بجائے ؑعدالت میں لے جارہے ہیں ،عدلیہ نے بار ہاں نہ صر ف کہا ہے کہ اپنے معاملات مل بیٹھ کر خود ھل کریں

،بلکہ عدالت کی جانب سے بار بار مذاکرات کی راہ بھی سجھائی گئی ہے ،لیکن حکمران قیادت نے مذاکرات کے بجائے عدلیہ سے ہی محاز آرائی شر وع کر دی اور پا لیمان کو عدلیہ کے بل مقابل لا کھڑا کیا ہے ،عدلیہ بڑے تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے ؛لیکن حکمران قیادت کو عدلیہ کے تحمل کا ناجائز فائدہ نہیں اُٹھانا چاہئے ،حکمران اتحاد پارلیمان کی آڑ میں جتنا مرضی آئین و قانون کی خلاف ورزی کی باتیں کر لے،لیکن انہیں عدلیہ کے فیصلوں کو نہ صرف ماننا پڑے گا ،بلکہ اُ ن پر عمل بھی کرنا پڑے گا۔
یہ ساری باتیں آئین میں لکھی ہیں ،اس آئین کی پاسداری کی باتیں پارلیمان میں کھڑے ہو کر حکمران اتحادی بھی کرتے ہیں ،لیکن اس آئین پر عمل کرتے ہو ئے گھبراتے ہیں ،آئین میں لکھا ہے کہ نوے روز میں انتخابات ہو نے ہیں ، لیکن اس آئین کی پاسداری سے بھاگ رہے ہیں ،حکمران کب تک اپنی ہار کے ڈر سے بھاگتے رہیں گے

،انہیں آج نہیں تو کل عوام کی عدالت میں آنا ہی پڑے گا ،حکمرانوں کی انتخابات سے گریزاں کی روش نے ہی ان کو آج تک مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو نے دیا ہے ،تاہم اگر اب فریقین میں مذاکرات کا آغاز ہوہی چکا ہے تو ماضی کو کریدنے یا ایک دوسرے کو مود الزام ٹھرانے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے در پیش مسائل کا کوئی متفقہ حل تلاش کیا جائے ،سیاسی قیادت کیلئے افہام و تفہیم کی فضا میں سیاسی بصیرت سے سارے ہی معاملات کا متفقہ حل نکلنا کوئی مشکل کام نہیں ،لیکن اس کیلئے خلوص نیت شرط ہے ۔
ا س وقت سیاسی قیادت کی دانش کا امتحان ہے کہ وہ مل بیٹھ کردرپیش مسائل کا حل نکالنے کی بہتر سلاحیت رکھتے ہیں ،اس کیلئے لازم ہے کہ ڈی ایم اور پی ٹی آئی قیادت سنجیدگی سے معاملے کو سلجھانے میں اپنا کردار ادا کرے ، فریقین میں مذاکرات تو شروع ہو چکے ،لیکن اعتماد کی فضا دکھائی نہیں دیے رہی ہے، اِس وقت بظاہر فریقین کے درمیان اعتماد کا فقدان ہی دراصل مذاکرات کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے،

ورنہ انتخابات کی تاریخ کے علاوہ لگ بھگ سب ہی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں کرانے پر رضامند ہیں،اس لیے بہتر ہوگا کہ تمام سیاسی دھڑوں کی سینئر قیادت سب سے پہلے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کی گولہ باری کو روکے، ایک دوسرے پر الزامات اور کیچڑ اچھالنے کی روش ترک کرے ، اپنے سیاسی مخالف کے مینڈیٹ کو صدقِ دل سے تسلیم کر ے اورنیک نیتی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کرے، یہ بات تو طے ہے کہ مخالفت برائے مخالفت کو یکسر ختم کرنے کی خواہش تو ہو سکتی ہے،

لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے، ایسا پہلے کبھی ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کچھ ہو سکتا ہے،تاہم اگر مذاکراتی عمل کے ذریعے سیاست کی گاڑی بنا کسی رکاوٹ، ایک مثبت سوچ، ایک مناسب رفتار اور باہمی مشاورت سے ایک درست سمت میں آگے چلتی رہے گی تو ہی جمہوریت آگے بڑھ پائے گی،بصورت دیگر دبے قدموں کی صاف سنائی دیتی باز گشت سب کچھ ہی لپیٹ دیے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں