درست راستے کا انتخاب ! 33

مذاکرات سبوتاژ کرنے کی سازش!

مذاکرات سبوتاژ کرنے کی سازش!

ملک میں ایک طرف بحرانی کیفیت ہے تو دوسری جانب سیاسی قیادت پے در پے مسائل سے نکل نہیں پارہے ہیں،سیاسی قیادت جن مسائل میں الجھی ہوئی ہے ،اس کا حل صرف مذاکرات اور سمجھوتے کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے،اس کا ادراک کچھ دیر سے ہی سہی،مگر کرتے ہوئے مل بیٹھے ہیں ،تحریک انصاف اور پی ڈی ایم و پیپلزپارٹی کے وفود میں مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں اور دونوں اطراف کا ماننا ہے کہ بات چیت اچھے ماحول میں جاری ہے ،بڑی رکاوٹیں پہلے ہی دور ہوچکی ہیں ،جو کچھ باقی رہ گئی ہیں ،

وہ آئندہ ملا قات میں دور ہو جائیں گی ،عوام ایک اچھی خبر سننے کے شدت سے منتظر تھے کہ چوہدری پرویز الہٰی کے گھر پر پولیس کے چھاپے کی بری خبر سنا دی گئی ہے، حکومت ایک طرف مذاکرات کا ڈول ڈالے ہوئے ہے تو دوسری جانب گر فتاریاں اور چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے ،اس ماحول میں مذاکرات سے اچھے نتائج کی توقع رکھنا عوام کو دھوکہ دینے کے ہی مترادف دکھائی دیتی ہے ۔
اگر دیکھا جائے توحکمران اتحاد انتخابات کروانا چاہتے ہیں نہ ہی اپنے مخالفین سے انتخابات پر کوئی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ،سپریم کورٹ نے انہیں مجبور کردیا ہے کہ مل بیٹھیں اور مشاورت سے کوئی قابل قبول حل تلاش کریں ،حکومت اور اپوزیشن وفود مل بیٹھے تو الجھے معاملات سلجھنے کی تدبیریں نکلیں لگیں ،لیکن کوئی ایسی قوت ضرور موجود ہے،جو کہ ایسا نہیں چاہتی ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی انداز میں سلجھائے جائیں

،اس لیے چودھری پرویز الہی کے گھر پر چھاپا مار کر مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، حکومت کے وزیر خزانہ سحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی کے گھر پر چھاپے سے وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں، یہ کارروائی نگراں پنجاب حکومت کی جانب سے کی گئی ہے،جبکہ پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چودھری نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے ،تاہم پی ٹی آئی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئین کے دائرے میں انتخابات کے فریم ورک پر مذاکرات جاری رکھے جائیں گے اور آئندہ نشست پر حتمی ایجنڈے پر بات ہو گی۔
تحریک انصاف قیادت کی جانب سے مذاکراتی عمل جاری رکھنا قبل ستائش ہے ،تاہم کچھ حلقوں کی طرف سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ حکومت مذاکرات میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں ، بلکہ وقت گزاری کررہی ہے ،اس کا واضح ثبوت مسلم لیگ( ن ) قیادت کے مختلف بیانات میں بھی دکھائی دیتا ہے ،پی ٹی آئی کے صدر چودھری پرویز الٰہی کے گھر اینٹی کرپشن پولیس کا چھاپہ اور بکتر بند گاڑی کی ٹکر سے دروازہ توڑنے‘ خواتین اور ملازمین کو ہراساں کرنے جیسی کارروائی سے بھی شک پڑتا ہے کہ مذاکرات کے معاملے میں حکومت کے اندر بھی کسی حدتک تقسیم موجود ہے،یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شائد کوئی طاقت سیاسی مفاہمت نہیں چاہتی ہے،

اس لئے پرویز الٰہی کے گھر چھاپے سے مذاکراتی ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،سیاسی قیادت کو بدلتے حالات کے ساتھ پس پردہ سازشوںکو بھی مد نظررکھنا ہو گا،یہ مذاکرات اور چھاپے ایک ساتھ چل سکتے ہیں نہ ہی حکومت خود کو بر ی اُزما قرار دیے سکتی ہے ،اگریہ سب کچھ حکومت کی مرضی نہیں ہورہا ہے تو پھر کس کی مرضی سے ہو رہا ہے ،یہ دیکھنا بھی کسی اور کا کام نہیں ، بلکہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے ۔
حکومت اپنی ذمہ داری سے دست بردار ہو سکتی ہے نہ ہی صوبائی حکومت پر سب کچھ ڈال کر راہے فرار اختیار کر سکتی ہے ، وزیر اعظم اور کابینہ کو سوچنا چاہیے کہ اقتدار کیلئے کب تک دوسروں کے آلہ کار بنتے رہیںگے اور کب تک ایک دوسرے کو مود الزام ٹھراتے رہیں گے ،خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اس حد تک نہ جائیں کہ ہر طرح سے مذاکرات کے دروازے بند ہو جائیں اور فیصلے سڑکوں پر عوامی عدالت میں ہو نے لگیں، عوام ائے روز کی ظالمانہ اور جابرانہ کاروائیوں سے تنگ آچکے ہیں

،رہی سہی کسر چو دھری پرویز الٰہی کے گھر پر پولیس کے بے رحمانہ حملے نے پوری کردی ہے ،اس واقعے نے عوامی جذبات کو اس انداز میں مشتعل کیا ہے کہ آئین اور قانون کی حاکمیت پر یقین رکھنے والوں کو بھی انتہائی مایوسی نے آن گھیرا ہے اور وہ طاقت کے اندھے استعمال کے آگے بند باندھنے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں، یہ بات صرف چودھری پرویز الٰہی کی نہیں ہے، بلکہ آئین، قانون اور جمہوری تقاضوں اور ضابطوں کی بھی ہے کہ جس کی بڑی ہی بے دردی سے دھجیاں بکھری جارہی ہیںاور کوئی پو چھنے والا اور روکنے والا ہی نہیں ہے

،اس جرم میں سب برابر کے شریک کار ہیں اور کو ایک بھی بر ی ازماں نہیں ہے ،عوام سب کو دیکھ چکے اور سب کے چہرے بھی اچھی طرح پہچان چکے ہیں ،وہ دن اب زیادہ دور نہیں رہا ہے کہ جب عوام کے ہاتھ میں ان سب کے گریباں ہوں گے اور انہیں کوئی بچانے آگے نہیں آئے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں