درست راستے کا انتخاب ! 48

مہم جوئی کی قیمت چکانا پڑے گی !

مہم جوئی کی قیمت چکانا پڑے گی !

حکومت اور اپوزیشن کے مل بیٹھنے کے باوجود انتخابات کا معاملہ حل ہی نہیں ہو پارہا ہے ،سپریم کورٹ میں بھی ایک بار پھر الیکشن کیس کی سماعت ہوئی ،مگر انتخابات پر چھائی دھند چھٹ نہیں سکی ہے ،حکومت مذاکرات جاری رکھنے پر زور دیے رہی ہے ،جبکہ تحریک انصاف مذاکرات کو وقت کاضیائع سمجھتے ہوئے چودہ مئی کو ہی الیکشن کرانے کا اصرار کررہی ہے،سپریم کورٹ کا بھی کہنا ہے

کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت چودہ مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی ،اس پر آئین کے مطابق عمل در آمد کرایا جائے گا،عدلیہ کب اور کیسے اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروائے گی ،یہ تو آنے والا قت ہی بتائے گا ،تاہم اس سیاسی مہم جوئی کی قیمت سب کوہی چکانا پڑے گی ۔
اتحادی حکومت پارلیمان کے اندر اور باہر جتنی مرضی بڑکیں مارے اور للکارتی رہے ،مگر یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ انہیں عدالتی فیصلے نہ صرف ماننے پڑیں گے ،بلکہ اس پر عمل در آمد بھی کرنا پڑے گا ،

اس لیے حکمران قیادت کے پارلیمان اندر اور عدالت کے سامنے رویوں میں تزاد نظر آتا ہے ،ایک طرف اتحادی قیادت عدلیہ کے فیصلے ماننے سے انکار ی ہیں تو دوسری جانب عدالت میں آکر مذاکرات کیلئے وقت مانگتے دکھائی دیتے ہیں ،سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما سعد رفیق کا کہنا تھا کہ بات دو ،تین ہفتوں کی رہ گئی ہے ،اس لیے مزید وقت دیا جائے ،تاکہ مذاکرات جاری رکھیں جاسکیں ،اگر معاملہ واقعی چند ہفتوں کاہی رہ گیا ہے تو یقیناََگفت و شنید کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے ۔
تحر یک انصاف کو مذکرات جاری رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے،مگر حکومت پر اعتماد بھی نہیں ہے کہ کوئی نتیجہ خیز مذاکرات کرنا چاہتی ہے ، اگر دیکھا جائے تو حکومت انتخابات کرنا چاہتی ہے نہ ہی نتیجہ خیز مذاکرات پر سنجیدہ ہے ،حکومت چودہ مئی ٹالنے کیلئے وقت گزاری کررہی ہے ،حکومت اور اپوزیشن میں انتہائی بے اعتمادی دکھائی دیتی ہے ،اس بے اعتمادی میں حوصلہ افزا نتائج کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے

،حکومت عدالت میں جیسے مذاکرات جاری رکھنے پر مثبت رویئے کا اظہار کررہی ہے ،اسے ویسے ہی عدالت کے باہر بھی اپنا روئیہ مثبت رکھنا چاہئے،اگر حکومت ایک طرف پکڑ دھکڑ اور چھاپے مارتی رہے گی اور دوسری جانب زبانی کلامی نتیجہ خیز مذاکرات کے دعوئے کرے گی تو اس پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا ۔
سپریم کورٹ نے اب تک بڑے ہی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ، عدلیہ کو مزید آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے ،سیاسی معاملات سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر نیک نیتی سے حل کر نے کی کو شش کر نی چاہئے ،اگر حکومت چاہتی ہے کہ موجودہ اسمبلی بجٹ پیش کرے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے تو ہی اسمبیاں توڑ کر پورے ملک میں اکھٹے انتخابات کرادیے جائیں تو پی ٹی آئی کو بھی بے جا خدشات میں مبتلا ہونے کے بجائے تھوڑا سا مزیدانتظار کر لینا چاہئے

، پی ٹی آئی قیادت بخوبی جانتے ہیں کہ اتحادی جتنا اقتدار میں رہیں گے ،پی ٹی آئی کو اتنا ہی فائدہ ہو گا ،کیو نکہ عوام پہلے ہی آئے روز برھتی مہنگائی اور بیڈ گورنس کے ہاتھوں حکومت سے نالاں ہیں ،اس آئی ایم ایف کے بجٹ کے بعد تومزید ان سے بے زار ہوجائیں گے ،حکومت سے عوام کی بے زاری پی ٹی آئی کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہی کرے گی ۔اس وقت ملک سخت عدالتی فیصلوں کا متحمل ہو سکتا ہے نہ ہی کسی احتجاجی لانگ مارچ کا بوجھ اُٹھاسکتا ہے ، حکومت اور اپوزیشن کابنیادی تنازعہ انتخابات ہیں، ایک پارٹی فوری الیکشن چاہتی ہے، جبکہ دوسری اس سال اکتوبر میں انتخابات کیلئے رضا مند ہوگئی ہے

، اگر فریقین الیکشن کی تاریخ مل بیٹھ کر باہمی مشورے سے مئی اور اکتوبر کے درمیان میں طے کرلیں تو آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں،اس سیاسی تصفیے پر عدالت مہر تصدیق ثبت کر دیے گی تو سارے خدشات بھی جاتے رہیں گے، حکومت اور اپوزیشن کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے کے بجائے اپنے فیصلے خود کر نے چا ہئے اور ٹکرائو کی سیاست سے گریز کرنا چاہئے ، کیو نکہ ملک کسی ٹکرائو کے ساتھ انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ،مقتدر ہ کو بھی لا تعلقی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے قومی مفاد میں اداروں کی کشیدگی ختم کر انے کے لیے اپنا کردار ادا کر نا ہوگا

، ملک جس قدر پے در پے بحرانوں کا شکار ہے ،اس میں مقتدرہ کا لاتعلق رہنا ملکی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے ، لہذا سب ارباب بست وکشاد سے درخواست ہے کہ اس سنگین مسئلے کو ایک بار پھر مل بیٹھ کرباہمی افہا م وتفہیم سے حل کر لیں، وگرنہ اس مہم جوئی کی قیمت جہاں دونوں فریقین کو چکا نا پڑے گی ،وہیں اس کا خمیازہ ملک وعوام کو بھی بھگتنا پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں