مجاہدین پیداکرنے والی ماؤں کی معاشرے کو ضرورت ہے 40

انتخابات کرانے ہی پڑیں گے !

انتخابات کرانے ہی پڑیں گے !

یہ ملک بھر میں جتنا کچھ پچھلے چند دنوں سے ہورہا ہے،یہ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ الیکشن رکوائے جائیں،اس میں اتحادی حکومت بڑی حدتک کامیاب رہی ہے ،لیکن الیکشن رکوانے میں جسکا جو کرادا رہا ،اُسے بھگتنا تو پڑے گا ، اس بچنے کیلئے پی ڈی ایم والے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیے رہے ہیں ،اس دھرنے میں زیادہ تعداد مولانا فضل الرحمن کے مدرسوں کے طالب علموں کی ہے ،یہ احتجاج صرف اس لیے کیا جارہا ہے

کہ کہیں سپریم کورٹ آئین پر عمل درآمد نہ کرنے کے سبب وزیر اعظم سمیت دیگر وزراء کو فارغ نہ کردے ، اتحادی حکومت جانتی ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس انہیں فارغ کرنے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں ہے،اس کے باوجود حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے سپریم کورٹ پر دبائو بڑھانے کی کوشش کررہی ہے ،اتحادی دھرنے دیں یا سپریم کورٹ پر دبائو بڑھائیں ،انتخابات آج نہیں تو کل کرانے ہی پڑیں گے ۔

حکمران اتحاد ایک سال قبل اقتدار میں بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ عوام کے مسائل کا تدارک کرنے آئے تھے ، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی عوام کی مشکلات کم ہو نے کے بجائے مزید بڑ ھتی چلی جارہی ہیں ، اس صورتحال میں چاہئے تھا کہ حکومت اپنی نااہلی پر شر مندگی کا اظہار کرتے ہوئے عوام کی عدالت میں جاتی اور عوام پر فیصلہ چھوڑا جاتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ، اس کے برعکس اتحادی حکومت عوام کی عدالت میں جانے سے نہ صرف گریزاں ہے ،بلکہ ہر ایسا حربہ آزمایا جارہا ہے

کہ جس سے عوام کی عدالت میںجانا ہی نہ پڑے ، حکومت ایک طرف عوام کی عدلت میں جانے سے گریز کررہی ہے تو دوسری جانب سرعام عدلیہ کے فیصلے ماننے سے انکار ی ہے ،حکمران اتحاد اپنی ساری کار گزاریاں اپنا اقتدار بچانے کیلئے کررہے ہیں ،جبکہ اس سارے عمل میں دونوں جانب سے عوام بری طرح پس رہے ہیں۔اگر دیکھا جائے توگزشتہ ایک برس کے دوران حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ریاست کے مفاد میں کوئی فیصلہ دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،ملکی معیشت ڈوب رہی ہے‘

شہری اور ریاست کا رشتہ کمزور ہو رہا ہے، کیونکہ حکومت ریاست بن کر عام شہری کی جان‘ مال اور آبرو کا تحفظ کر پائی نہ ہی ملکی استحکام‘ ترقی ‘ تجارت بیرونی دنیا سے روابط وغیرہ جیسے میدانوں میں کارکردگی کا مظاہرہ کر پائی ہے ،اس کے باوجود دعویدار ہے کہ ہم عوام میں مقبول ہیں ،حکومت اپنی ناقص کا رکردگی کے باعث انتہائی غیر مقبول ہو چکی ہے،ساری سروے رپورٹس کے ساتھ انتظامی گرفت اور احکامات پر عملدرآمد نہ ہونا صاف بتارہا ہے کہ پی ڈی ایم اقتدار میں آکر اپنا کوئی وعدہ بھی پورا نہیں کر پائے ہیں،

نیب قوانین میں ترمیم اور حکومتی شخصیات کے یکے بعد دیگرے مقدمات سے رہا ئی نے رہی سہی ساکھ بھی ختم کردی ہے،اتحادیوں کے پاس ماسوائے الیکشن سے بھاگنے اور خود کو بچانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ،اس کیلئے ہی سر دھڑ کی بازی لگائی جارہی ہے ،ایک طرف اسلام آباد میں دفع ایک سو چوالیس لگا رکھی ہے تو دوسری جانب احتجاجی دھرنے کے ذریعے خود ہی خلاف ورزیاںکی جارہی ہیں۔
یہ حکمران اتحاد کے قو فعل کا تذاد کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیاہے ،اس سے قبل بھی اتحادی اپنے مفاد میں آئین و قانون کی خلاف ورزی کا بے دریغ استعمال کرتے آ رہے ہیں ،حکومت کی جاری من مانیوں میں رو کاوٹ عدلیہ بن رہی ہے تو اس کے خلاف بھی محاذ کھول لیا گیا ہے ،حکمران اتحاد ایک طرف ببانگ دہل عدلیہ کے فیصلوں سے انکا ری ہے تو دوسری جانب سیاسی مخالفین کا سیاسی انداز میں مقابلہ کر نے کے بجائے

غیر سیاسی انداز میں نشانہ بنا یا جارہاہے ،گزشتہ دنوں عمران خاں کی گرفتاری کے بعد جو واقعات سامنے آئے ہیں، ان سے اتحادی حکومت کسی طرح بھی بری الذمہ نہیں ہے ،اتحادی قیادت نے اپنی انتقامی سیاست کے ذریعے ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین کو اشتعال دلایا ہے ،اس اشتعال دلانے کا ہی نتیجہ ہے کہ حساس ادارے اور عوام ایک دوسرے کے سامنے آئے ہیں ،اس میں اپوزیشن کے ساتھ اتحادی قیادت بھی برابر کی شر یک کار ہے

،اس لیے دونوں کا ہی بلا امتیاز حساب و احتساب ہو نا چاہئے ،تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی جرأت ہی نہ کر سکے ،لیکن اس کے بر عکس بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ مولانا کی شر انگیزی میں سہولت کاری کی جارہی ہے۔اس وقت نازک صورتحال کے پیش نظر حالات کا تقاضا ہے کہ اتحادی حکومت اپنی کو تا ہیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے سیاسی استحکام لانے کی کوشش کرتے ،مگر اس کے برعکس احتجاجی دھرنا دیا جارہا ہے، مولانا کی سر عام سہولت کاری کی جارہی ہے ،گزشتہ ایک ہفتے میں احتجاج کے نام پر جو کچھ ہوا ،

اْس کا خمیازہ ابھی تک بھگتنا جارہا ہے،قوم اب مزید کسی احتجاج و دھرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے ، اِس لیے جوش سے نہیں، ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے، یہ وقت جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے کرنے کا نہیں ، افہام تفہیم سے راستہ نکالنے کا ہے،اگر اتحادی حکومت اب بھی سپریم کورٹ میں جاکر انتخابات کی یقین دہانی کرادیے تو شاید توہین عدالت سے بچ جائے ،بصورت دیگر پارلیمان میں قرار دادیں منطور کرلے ، احتجاجی دھرنے کرلے یا کچھ بھی کرلے ،توہین عدالت میں نااہل ہونے کے بعد بھی انتخابات توکرانے ہی پڑیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں