Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

قومی مصالحت کی طرف آئیں !

مجاہدین پیداکرنے والی ماؤں کی معاشرے کو ضرورت ہے

ملکی سلامتی سب سے مقدم !

قومی مصالحت کی طرف آئیں !

نومئی کو مادر وطن میں جو کچھ ہوا،نہیں ہونا چاہئے تھا ،اس پر جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ،لیکن اس پر مذمت کے ساتھ بلا امتیاز انکواری بھی ہو نی چاہئے ،اس حوالے سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا مطالبہ سو فیصد درست ہے کہ ایک ا ٓزاد کمیشن کے ذریعے انکوائری ہونی چاہئے، جبکہ حکومتی کیمپ اسے محض اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے،اس مخالفت برائے مخالفت کے رویئے کو دیکھتے ہو ئے

کہنا آسان ہو جاتا ہے کہ حکومت اداروں میں تقسیم دور کرنے کے بجائے تحریک انصاف کو اداروں سے لڑانا چاہتی ہے،لیکن اس میں شاید کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گی۔حکمران اتحاد جب سے اقتدار میں آئے ہیں ،انہوں نے مفاہمت کے بجائے اختلاف کو ہی پروان چڑھایا ہے ،یہ اختلاف برائے اختلاف کا ہی نتیجہ ہے کہ سیاست میں ایک جمود کی کیفیت طاری ہو چکی ہے ، اگر موجودہ سیاسی جمود ایسے ہی برقراررہتاہے

تو معیشت مزید برباد ہوگی ،ملک میں غیر ملکی سرمایا کاری تو درکنار، بیرو ن ملک پاکستانی بھی وطن عزیز کا رخ کرنا چھوڑدیںگے،اس وقت سب ایک ایسی بند گلی میں پھنس چکے ہیںکہ جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،اس بند گلی سے نکلنے کا وحد راستہ شفاف انتخابات کا انعقاد ہے ،مگر حکومت اپنی ہار کے در سے الیکشن کرانا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔
حکمران اتحاد کب تک الیکشن سے راہ فرار اختیار کر سکتے ہیں ،موجودہ صورتحال میں زیادہ دیر تک الیکشن سے فرار ممکن نہیںرہا ہے

،الیکن الیکشن سے قبل الیکشن کے معاملات طے کرنا بھی ضروری ہیں ،اس کیلئے فریقین میں مذاکرات ہو نے چاہئے ،اگر مذاکرات کے بغی الیکشن ہوئے تو شکست کھانے والا،اپنا لنگوٹ کس کر الیکشن کی شفافیت چیلنج کرے گا اور نئی حکومت کو کبھی ٹکنے نہیں دے گا، الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پرپہلے ہی سوالات اٹھا ئے جارہے ہیں اور آئندہ بھی نکتہ چینی جاری رہے گی،شفاف الیکشن اور پرامن انتقال اقتدار ایک ایسانکتہ ہے کہ جس پر تمام جماعتوں کو ازسر نو بیٹھ کر مذاکرات کرنے ہوںگے۔
حکومتی اتحاد جتنا مرضی مذاکرات سے گریزاں رہے ،اسے آج نہیں تو کل مزاکرات کرنا ہی ہوں گے ،اس جانب قومی سلامتی کونسل کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرمذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل تلاش کریں، اہل سیاست میںمذاکرات کا سلسلہ جہاں ٹوٹا تھا ،وہاں سے ہی دوبارہ شروع ہوناچاہیے،اس تنائوکے موجودہ ماحول میں پیپلزپارٹی ہی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے،جو کہ سیاسی درجہ حرارت کم کرانے اور متنازعہ امور پر اتفاق رائے پیدا کرانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے،مسلم لیگ (ن ) میں بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں کہ سیاسی مسائل اور بحران کا حل طاقت کے بجائے حکمت ودانائی کے ساتھ سیاسی انداز میں ہی حل کیا جائے،اگر انتقامی سیاست کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو اس کے نتائج کبھی کسی کیلئے بھی اچھے نہیں نکلیں گے ۔
حکومت کو بڑی دیر بعد موقع ملا ہے تو اسے ضائع کرنا نہیں چاہتی ہے ،اس لیے طاقت کا بھر پور استعمال کیا جارہا ہے ، پی ٹی آئی کڑے امتحان سے گزررہی ہے ،ظاہر ہے کہ اتنا زیادہ دبائوبرداشت کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے ،کمزور اعصاب اور عہدوں کے لالچی پی ٹی آئی چھوڑ یں گے اور کچھ سیاست سے تائب بھی ہوجائیں گے ،لیکن پی ٹی آئی کا ووٹر اور اس کے حامی کبھی ساتھ نہیں چھوڑیں گے ، وہ( ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے گھر بیٹھ جائیں گے ،اتحادی بھی عوام کا موڈ بخوبی جانتے ہیں ،لیکن ہاتھ آئے موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں ، لیکن یہ موقع ہی آئندہ آنے والے دنوں میں ان کے گلے پڑجائے گا ۔
اہل سیاست نتائج سے بے پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دست گریباں ہیں اور کو ئی ایک بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ،حالا نکہ سیاست میں کبھی دوقدم آگے اور ایک قدم پیچھے ہٹنا ہی پڑتاہے، آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا ،اگر الیکشن دوماہ پہلے یا بعد میں ہو جائیں ،ایک قومی سطح کی اعتدال پسند سیاسی جماعت کو کبھی ریاست کے ساتھ اور ریاست کو اس کے ساتھ ٹکرانا چاہیے نہ ہی ایک ایسی سیاسی جماعت جو کراچی سے خیبر تک پاکستانیوں کو ایک لڑی میں پروتی ہے، اسے دیوار سے لگانے کی کوشش کرنی چاہیے

،اس کے منفی اثرات تصور سے بھی کئی زیادہ ہوں گے،سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں، انہیں جیلوں میں ڈالنے ، رسوا کرنے اور خواتین کارکنان کی تذلیل کرنے سے ملک مزیدکمزور ہی نہیں، بلکہ نڈھال ہوجائے گا، اس وقت ملک کو سب سے بڑی ضرورت قومی مصالحت اور سیاسی و معاشی استحکام کی ہے، اس کیلئے دونوں فریقوں کو اپنی اناؤں سے اوپر اٹھ کر اپنے مواقف سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ خطرہ بھی خارج از امکان نہیں کہ پکی پکائی دیگ کوئی اور لے اڑے اور سیاستدان باہمی جھگڑے میں ہاتھ ملتے ہی رہ جائیںگے۔

Exit mobile version