مجاہدین پیداکرنے والی ماؤں کی معاشرے کو ضرورت ہے 65

عوام کو ہی فیصلے کا اختیار دیا جائے!

عوام کو ہی فیصلے کا اختیار دیا جائے!

تحریک انصاف قیادت نے گھیرائو جلائو کے واقعات کی مذمت کے ساتھ ان سے لاتعلقی کا اظہار بھی کر دیا ہے ،لیکن سیاسی مخالفین ان کے پہلے ہی ری ایکشن کا بھر پور فائدہ اُٹھانے میں لگے ہیں، اس ملک کے عوام سیاست میں مقتدر حلقوں کی مداخلت پسند نہیں کرتے ہیں، لیکن اس بات کے بھی کسی کو حق نہیں دیتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی محاذ کھول لیا جائے ،اس لیے ہی نومئی کے المناک واقعات کے بعد پی ٹی آئی کی عوامی حمایت میں بڑی حد تک کمی آئی ہے اور ایسالگنے لگا ہے کہ عمران خان کسی بند گلی میں جا کر پھنس گئے ہیںاور انہیںبند گلی سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیے رہا ہے۔
حکمران اتحاد کے ہاتھ بڑے عرسے بعد ایسا موقع آیا ہے تو اس کا بھر پورفائدہ بھی اُٹھایا جارہاہے ،ایک طرف حکمران اتحاد اپنی ساری دبی انتقامی خواہشات پوری کرنے میں لگے ہیں تو دوسری جانب مقتدرہ پوری قوت کے ساتھ پی ٹی آئی کے خلاف صف آراء ہے، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کے ملزموں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا،نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی سے کسی کو بھی انکار نہیں

،لیکن اس کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کانشانہ بنادرست نہیںہے،اس پالیسی کے تحت جہاں سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ جاری ہے ،وہیں حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والے صحافیوں کو بھی پا بند سلاسل کیا جارہا ہے، اینکر پرسن عمران ریاض خان کو ایک بار پھرُ اُٹھالیاگیا ہے ،عدالت اسے پیش کرنے کا بار ہاحکم دے چکی ہے، لیکن شائداس حالت میں نہیں ہے کہ اسے پیش کیا جاسکے، اس لیے پولیس ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ پولیس کی تحویل میں ہی نہیں، کسی اور ادارے کی تحویل میں ہے، جوکہ لوگوں کو لاپتا کرنے میں خاص شہرت رکھتا ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں مقتدرہ کی مرضی کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا تویہ سب کچھ کیسے ہو رہا ہے اور کون کررہا ہے ، اگراسے پہلے نہیں روکا گیا تو اب روکا جاسکتا ہے ،لیکن کوئی روکنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،یہ سب کچھ ان کی من منشاء سے پہلے بھی ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے ، گزشتہ عام انتخابات میں الیکٹ ایبلز پی ٹی آئی میں شامل کروائے گئے اور اب حالات تبدیل ہورہے ہیںتو وہی اْڑنے کے لیے پَر تول رہے

ہیںاور بہت سے اْڑ بھی چکے ہیں،یہ لوگ ہوا کا رْخ دیکھ کر پہلے ہی اپنا قبلہ تبدیل کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں، اس لیے ان پر دبائو ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، موسمی پر ندوں کیلئے ایک اشارہ ہی کافی ہوتا ہے ،یہ موسمی پرندے اپناٹھکانابدلنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں، موسمی پرندوں کو اشارہ مل چکا ہے اور یہ پر ندے اُڑنے لگے ہیں ،ان کی اُڑان دیکھتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ بہت جلد عمران خان تنہا ہوجائیں گے اور ان کے آس پاس چند مخلص دوست اور ان کی لیگل ٹیم ہی باقی رہ جائے گی۔
یہ بات عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں بہت کم ہی لوگ ساتھ کھڑے رہ سکیں گے ،اس لیے انہوں نے پہلے ہی کہنا شروع کر دیا ہے کہ جانے والوں کو برا نہ کہا جائے ،وہ انتہائی مجوری میں جارہے ہیں اور میں ان کی مجبوریوں کو اچھی طرح سمجھتا ہوں ، پی ٹی آئی کو ان کے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ، پی ٹی آئی کو موسمی پر ندوں کے جانے سے فرق نہ بھی پڑے ،مگر مقتدر حلقوں کی نارضگی سے بہت زیادہ فرق پڑ رہا ہے ،پی ٹی آئی قیادت کی پس پر دہ کائوشیں جاری ہیں کہ معاملات سلجھا ئے جائیں

،مگر معاملات الجھانے والوں نے اتنے زیادہ الجھا دیے ہیں کہ جلد سلجھتے نظر نہیں آ رہے ہیں ،اس صورتحال کا حکمران اتحاد پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عمران خان کو سیاست سے مائنس کرنے اور پی ٹی آئی کو بین کروانے میں کو شاں ہیں، کیا اس بحرانی کیفیت سے عمران خان اور ان کی پارٹی بچ پائے گی ؟اس وقت پارٹی قیادت کا سنبھلنا انتہائی مشکل ضرور ،مگر ناممکن نہیں ہے،کیو نکہ اس ملک میں حالات کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں اور ہوائیں اپنا رخ بھی تبدیل کر سکتی ہیں ۔
پا کستانی سیاست میں سب کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے

،اس سے قبل بھی ایسا ہی کچھ دہرایا جاتا رہا ہے ،ایک بار پھر وہی پرانا سکرپٹ نیا کر کے دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس بات سے ہر ذی شعور بخوبی واقف ہے کہ اس کاا نجام پہلے اچھا نکلا نہ ہی آئندہ اچھا نکلنے والا ہے ،لیکن اس عام سی بات کی بار بار آزمائے ہوں کو سمجھ نہیں آرہی ہے ، ایک بار پھر وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،یہ وقت غلطیاں دہرانے کا نہیں ،اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا ہے ،اہل سیاست کے ساتھ اہل قیادت کو اپنے طرز عمل پر غور خوض کرتے ہوئے ناکام تجربات دہرانے سے گریز کر نا چاہئے

،طاقت کے بل پر سیاست سے کوئی مائنس ہو گا نہ ہی سیاسی پارٹی ختم کی جاسکے گی ،اگر سیاست سے کسی کو مائنس کرنا ہی ہے تو کار کردگی دکھا کر ووٹ کے ذریعے ہی مائنس کیا جاسکتا ہے ،اس کیلئے عوام کی عدالت میں جانا پڑے گا اور عوام ہی فیصلہ کریں گے کہ وہ اقتدار کسے دینا چاہتے ہیں ، یہ بند کمروں کے فیصلے اب چلیں گے نہ ہی انہیں عوام قبول کریں گے ،اس لیے بہترہے کہ عوام کو فیصلہ سازی کااختیار دیا جائے اور مان بھی لیا جائے کہ عوام کے حق میں بہتر فیصلہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں