دشمن مرے تے خوشیاں نا کریے !
استدلال کو استدلال سے شکست تو دی جاسکتی ہے ،لیکن خوف وہراس پیدا کرکے اختلافی آوازوںکودبایا نہیں جاسکتا، اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کی لیڈرشپ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تواب حکومت ریاستی وسائل اور انتظامی قوت کا استعمال کرکے پی ٹی آئی کو شکست وریخت کا شکار کررہی ہے ،جبکہ تاریخ کا سبق ہے کہ طاقت اور جبر کے ذریعے شہریوں کو بے بس کیا جاسکتاہے، ان کی زبانوں پر کچھ دیر کیلئے تالا لگایا جاسکتاہے،
ان کا سر بھی وقتی طور پر جھکایا جاسکتاہے،لیکن ان کے دلوں اور دماغوں کو کبھی مسخر نہیں کیا جاسکتا ،انہیں جب بھی موقع ملتا ہے ،یہ اپنے دل کا غبار ضرور نکالتے ہیں۔حکمران اتحاد کا نو مئی کی آڑ میں سیاسی انتقام اپنے زور وں پر ہے ،اتحادی حکومت اپنے سیاسی مخالف کو سیاسی دھارے سے نکلنے میں کو شاں ہے ،اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلیں گے ،لیکن حکومت سارے نتائج سے بے پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے پر گامزن ہے ،اس کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ کیا گیا
،اس کا نہ صرف بدلہ لینا ہے ،بلکہ سود سمیت واپس بھی کر نا ہے ، پی ڈی ایم خوشیاں منارہی ہے کہ پی ٹی آئی کو جبری بکھیر دیا گیا ہے ،لیکن بھول رہے ہیں کہ سیاسی دھارے سے جبری کٹ جانے والے بے قرار اور ناآسودہ ہی رہتے ہیں اور یہ بے قراری ،ناسودگی کبھی سیاسی استحکام آنے نہیں دیتی ہے۔
ملک میں جو کچھ ہوا اور جو ہورہاہے، اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے،گزشتہ ستر برسوں سے بیشتر حکومتیں اسی طرح کی من مانیاںکرتی رہی ہیں، آئین و قانون شکنی کے ساتھ عدلیہ کے فیصلوں کی پامالی بھی کی جاتی رہی ہے ،بلکہ ایک سیاسی جماعت نے تو اپنے دور حکومت میں سپریم کورٹ پر حملہ تک کرادیاتھا،سیاستدانوںکو ہانک کر ایک جماعت سے دوسری جماعت میں نہ صرف شامل کیا جاتارہا ،بلکہ سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ بھی کی جاتی رہی ہے ،یہ سب کچھ عرصہ دراز سے بار بار دہرایا جارہا ہے،
لیکن ان تمام حربوں کو کبھی لوگوں نے دل سے قبول کیانہ ہی آئندہ کریں گے،اس کے باوجود ایک پرانے ناکام سکرپٹ پر کام کر نے والے بضد ہیں کہ اس پرانے ناکام سکرپٹ کے ساتھ ہی نئی بننے والی فلم کا میاب بنائیں گے۔
سیاست میں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ہے ،اس لیے اپنے مخالف کو اتنا ہی دبانا چاہئے ،جتنا کہ وقت بدلنے پر خود داشت کیا جاسکتا ہے ،لیکن اتحادی حکومت انتقامی سیاست میں ساری حدود پار کررہی ہے ، اس انداز سیاست کا ردعمل بھی ضرور آئے گا، بظاہر ایسا لگ رہاہے کہ ریاست کو لمبے عرصے اپنے ہی لوگ سے الجھے رہنا پڑے گا اوریہ تلخی صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گی،بیرون ملک ایک کروڑ سے زائدپاکستانی بھی باہم گتھم گھتا ہوجائیں گے ،بیرون ممالک پہلے سے ہی بڑے موثر مظاہرے ہورہے ہیں،
انسانی حقوق کے ادارے بھی پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیمیں بھی بیانات جاری کررہی ہیں، اگر عمران ریاض کو زندہ سلامت رہا نہ کیا جاسکا تو پاکستان کو عالمی سطح پر سخت خفت اٹھانا پڑے گی۔
اس وقت ملک انتہائی خطرناک صورتحال سے گزرہا ہے ،تاہم اس کا ادراک اتحادی حکومت کررہی ہے نہ ہی پشت پناہی کر نے والے کررہے ہیں ، ملک کے اندر کوئی ایسی غیر متنازعہ شخصیت بھی دستیاب نہیں، جوکہ سیاسی طور پر متحارب گروہوں کے درمیان ثالثی کراسکے ، حکمران اتحادی کے پشت پناہوں کو دیکھتے ہوئے
دیگرحلقہ ا حباب کے لوگ بھی کونوں کدروں میں دبکے بیٹھے ہیں،اس صورت حال میںپی ٹی آئی زیر عتاب ہے اور اتحادی بغلیں بجارہے ہیں۔یہ رویہ جمہوری ہے نہ ہی جمہوری نظام کیلئے ہی بہتر ہے ،دشمن مرے تو خوشیاں نہ کریے ،سجنا وہی مر جانا اے ،اگر آج پی ٹی آئی زیر اعتاب ہے تو کل اتحادیوں کی باری بھی آسکتی ہے ،اتحادی حکومت کو نو مئی کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہئے ، قومی تنصیبات پر حملوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، انہیں قانون کے مطابق سزادی جائے،لیکن سیاسی لیڈروں اور کارکنان پر تشدد کیا جائے نہ ہی زبردستی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی جائی جانی چاہئے، اگر سیاسی انتقام ایسے ہی جاری رہا تو ایک طرف سیاسی عدم استحکا م بر قرار رہے گا تو دوسری جانب الیکشن جب بھی ہوں گے، متنازعہ ہی رہیں گے۔
اس صورتحال میںاہل سیاست کا منصب کشیدگی کو سخت اقدامات کی بجائے مکالمہ کے ذریعے کم کرنے کا ہے،مذاکرات سے ہر مسئلے کا حل نکلتا ہے،پی ٹی آئی قیادت مذاکرات کی بار بار دعوت دیے رہے ہیں ،لیکن حکمران قیادت کے جوابی بیانات جلتی آگ پر تیل کاکام کررہے ہیں، شعلہ بیانی سے معاملات سلجھتے ہیں نہ ہی طاقت کے زور پر سیاسی قوتیں ختم کی جاسکتی ہیں‘ وہ کچھ عرصہ خاموش ہو سکتی ہیں،انہیں کچھ دیر کیلئے غیر فعال کیا جا سکتا ہے ،لیکن سیاسی سوچ کبھی ختم نہیں کی جا سکتی
،اس لیے سیاسی مخالف کو زیر عتاب لاکر خوشیاں منانی چاہئے نہ ہی خود فریبی کا شکار ہو نا چاہئے ، ملکی معیشت سارے دعوئوں کے باوجود خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے ،کیو نکہ جہاں ہر وقت سیاسی ہنگامہ آرائی رہے گی،سیاسی عدم استحکام رہے گا، وہ ملک کبھی ترقی کرسکتا ہے نہ ہی خوشحالی کا منہ دیکھ سکتاہے