72

کوئٹہ ماضی اور حال

کوئٹہ ماضی اور حال

تحریر ۔ خالد حسین
کوئٹہ بلوچستان کا صد رمقام اور صوبے کا سب سے بڑاشہر ہے ، کوئٹہ کا نام پشتو لفظ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی قلعہ کے ہیں یہ شہر سطح سمندر سے 1700 سے 1900 میٹر بلند ی پر واقع ہے خیال یہ کیا جاتا ہے کہ کوئٹہ کانام کسی قلعہ کی وجہ سے نہیں بلکہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہونے کی وجہ سے قلعہ کا نام دیا گیا ہے اس شہرکے اطراف میں بنیادی طور پر خشک پہاڑ ہیں اُن میں چلتن ، زرغون اورمردار شامل ہیں ۔

کوئٹہ شہر ایک تاریخی اہمیت حامل ہے اپنی خوبصورتی ، پائن کے سرسبز گھنے درختوں کی بدولت اسے ماضی کالٹل پیرس بھی کہا جاتاہے ،کوئٹہ ایک قدیم شہرہے جس کے وجود کا ثبوت چھٹی صدی عیسویں سے ملتا ہے اُس وقت یہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حصہ تھا ساتویں صدی عیسویں میں جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو یہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا گیارہویں صدی عیسویں میں محمود غزنوی کی فتوحات میں کوئٹہ کا زکر ملتا ہے

ایک خیال یہ بھی خیال یہ بھی کیا جا تا ہے کہ تخت سلیمان سے کاسی قبیلے کے افراد نے بڑی تعداد میں یہاں آکر سکونت اختیار کی،1543 ء میں مغل شہنشاہ ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی طرف فرار ہورہاتھا تو یہاں کچھ عرصہ قیام کیا تھا اور جاتے جاتے اپنے بیٹے اکبر کو یہاں چھوڑ گیا جو دوسال تک یہیں رہا 1556 ء کوئٹہ مغل سلطنت حصہ رہا

جس کے بعد یہ ایرانی سلطنت کا حصہ بنا 1595 ء میں دوبارہ شہنشاہ اکبر نے کوئٹہ کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا یا ،1730ء کے بعد یہ ریاست قلات میں شامل رہا کہا جاتا ہے کہ1828ء میں ایک یورپی سیاح کے مطابق کوئٹہ کے گرد مٹی کی ایک بڑی دیوار تھی جس نے اسے ایک قلعہ کی شکل دے رکھی تھی اور اس میں تین سو سے زائد گھر آباد تھے

اور یوں کوئٹہ کا جائزہ لینے کے لیے کئی انگریز سیاح کوئٹہ آئے جن کا مقصد انگریزوں کو کوئٹہ سے متعلق معلومات مہیا کرنا تھا ،1839 ء کی پہلی برطانوی اور افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کوئٹہ پر قبضہ کرلیا اور اس طرح 1876 ء میں اسے باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کرلیا اور رابرٹ گرووسنڈیمن کو یہاں کا نمائندہ سیاسی یعنی پولیٹکل ایجنٹ مقرر کردیا گیا،کہا یہ جاتا ہے کہ اسی دوران بلوچ قبائل کے افراد کی ایک بڑی تعداد کوئٹہ میں آکر آباد ہوئی ،کوئٹہ کو انگریزوں نے ایک فوجی اڈہ میں تبدیل کردیا اور یوں رفتہ رفتہ اس کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا جوکہ 1935 ء کے تباہ کن زلزلے تک جاری رہا۔

کوئٹہ جہاں دیگر تاریخی حوالوں سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے وہاں ایک تباہ کن زلزلہ بھی ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے آج سے 88 سال قبل 31-30 مئی 1935 ء کی درمیابی شب تباہ کن زلزلہ جس نے چند لمحوں میں شہر کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا30 سیکنڈ کی اس قدرتی آفت نے چالیس ہراز سے زائد افراد کو ملبے کے ڈھیر تلے دفن کردیا تھا

اس زلزلے نے کوہ مردار سے چلتن تک زندگیوں کو نگل لیا اور ہر طرف موت کا رقص دکھائی دیا اور چیخ وپکار کی آوازیں بلند ہوتی رہیں اندرون شہر سول لائنز ، ریذیڈنسی ،پوسٹ آفس ،ریلوے کوارٹر سمیت اہم عمارات اور مقامات تباہ ہوگئے تھے کہا یہ جاتا ہے کہ شہر میں اکثر مکان گارے اور اینٹوں سے بنے ہوئے تھے

مشہور کاروباری بازار وزیر محمد روڈ ، صرافہ بازار ،منیاری روڈ ، گیسفورڈ روڈ، مسجد روڈ ، بروس روڈ ، قندھاری بازاراور شکارپوری بازار تھے، حبیب روڈ موجودہ سرکلر روڈ پر زیادہ عمارتیں جوکہ دومنزلہ تھیں شہر میں کئی مشہور مساجد تھیں جن میں جامع مسجد پیر ابوالخیر روڈ، خان قلات کی مسجد زیادہ شہرت کی حامل تھیں موجودہ پیراڈائز سینما جواس دور سے آج بھی اپنی جگہ پر واقعہ ہے اس کے باالمقابل ایک مسجد تھی جس کے اندر ایک چشمہ بھی تھا جو ایک خاص شہرت رکھتا تھا


کوئٹہ کی قدیم مساجد میں کاسی قلعہ کے اندر واقع مسجد ہے کوئٹہ کا سول ہسپتال موجودہ پوسٹل کالونی کی جگہ واقع تھا جرگہ ہال میں موجود پور ہاوس میں پولیٹیکل ایجنٹ کا آفس ضلع کچہری میں تھا موجودہ کمشنر آفس سرکٹ ہاوس میں ،اے جی آفس موجودہ ریذیڈنسی میں قائم تھا پولیس اسٹیشن تھانہ روڈ میں تھاعدالتیں ٹی بی کلینک کی عمارت میں قائم تھیں جس کی وجہ سے اس کا نام منصفی روڈ پڑا ہے

، کوئٹہ کلب موجودہ اسمبلی کی عمارت میں قائم تھا بسوں کا اڈہ میزان مارکیٹ کی جگہ تھا ، لیڈی ڈفرن ہسپتال پر شارع لیاقت پر ہاشمی مارکیٹ کی جگہ پر تھا ، ٹیلی گراف آفس سنٹرل پولیس آفس میں تھا ، مشن ہسپتال کے قریب واقع سنڈیمن ہائی سکول سائنس کالج کی جگہ اور گوردت سنگھ روڈ پر موجودہ اسپیشل ہائی سکو ل جوکہ اُس دور میں خاصہ ہائی سکول کے نام سے مشہور تھا اپنی اصل جگہ پر واقع ہے جب کہ اسلامیہ ہائی سکول بھی اپنی پُرانی جگہ پر واقع ہے امام بارگاہ کلاں میکانگی روڈ پر ہی تھا

شہر کے وست میں برساتی اور گندے پانی کی نکاسی کا بڑا نالہ حبیب نالہ کہلاتا تھاجو اب سٹی نالہ کے نام سے مشہور ہے کہا یہ جاتا ہے کہ اگر 1935 ء کے ز لزلے کے وقت یہ نالہ نا ہوتا تو کوئٹہ شہر کی طرح چھاونی بھی مکمل طور پر تباہ وبرباد ہوچکی ہوتی کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ لزلے کا زور نالے کی گہرائی کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا اگر چہ چھاونی کی بعض عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا تھا مگر نالے کی کٹائی کی وجہ سے سارا زلزلے کا زور شہر تک محدود رہا ۔


قارئین ۔ راقم الحروف کا والد سرگودھاسے کوئٹہ 1935 ء کے زلزلے کی تباہی کے بعد منتقل ہوا تھا اورمجھے یاد پڑتا ہے کہ 70 کی دہائی میں ہم پڑھتے تھے تو ابو کوئٹہ سے متعلق اپنی یادداشت بتا یا کرتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ جب میں کوئٹہ آیا تو اُس وقت یہ شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا تھا کچی اور پتھریلی سڑکوں اور پوسیدہ عمارتوں پر مشتمل اس شہر میں خوف طاری رہتا تھا اور کوئی بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا

کہ کوئٹہ شہر کبھی آباد ہوگا 7.1کے ایک ہی زلزلے کے جھٹکے نے جس طرح شہر کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا تھا وہ واقعی سوچنے کا مقام ہے اگرچہ 1935 ء میں کوئٹہ کی زیادہ تباہی کی ایک بڑی وجہ ناقص تعمیرات تھیں اور اکثر مقانات اور دکانیں کچی مٹی اور اینٹوں سے تعمیرکی گئی تھیں جس کی وجہ سے لمحوں میں پورا شہر کھنڈر بن گیا تھا اس تباہی کے بعد کوئٹہ میں لکڑی اور گارے، اسٹیل کی چادر کے بنے ہوئے

کمرے اور مقانات تعمیر ہونے لگے جس کے آثار آج بھی کوئٹہ میں کہیں کہیں دکھائی دیں گے زلزلہ زون پر ہونے کی وجہ سے کوئٹہ میں بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہیں تھی بلڈنگ کوڈ کے تحت ایک مخصوس اونچائی تک بلڈنگ تعمیر کی جاسکتی تھی مگر رفتہ رفتہ تجارتی مقاصد اور پراپر ٹی کی قیمتوں میں اضافے کے لالچ نے کوئٹہ میں ماضی کے خوف اور لمحہ بھر میں چالیس ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کے لززہ خیز واقعہ کوبھی بھلا کررکھ دیا ہے

جس تیزی سے کوئٹہ میں بڑی بڑی اور کئی منزلہ عمارتیں اور پلازے تعمیر ہورہے ہیں اور گلی کوچے بڑی بڑی اور بلند وبالاعمارتوں تلے چُھپ گئے ہیں اور آج کا بدقسمت کوئٹہ جس کے میدانوں پر بھی عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں او ر زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کے نا ختم ہونے والے لالچ نے شہر کو تنگ وتاریک گلی کوچوں میں تبدیل کردیا ہے خطرے کی ایک گھنٹی جو 1935 ء سے تاحال کوئٹہ کے باسیوں کو خبر دار کررہی ہے

کہ خدانخواستہ کسی بھی وقت کوئٹہ کی 1935 ء کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے اگر ایساہوا تو زرہ سوچئے کہ آج کوئٹہ کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق 28 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جوکہ 1935 ء کے مقابلے میں کئی گناہ ہے ان خطرات کو محسوس کرنا ہر شہری اور حکومتی ادارے کا فرض ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں