عوام تبدیلی کے منتظر ہیں ! 82

سیاسی استحکام بذریعہ مذاکرات !

سیاسی استحکام بذریعہ مذاکرات !

ملک کی سیاسی صورتحال الیکشن کیلئے ساز گار نہیں ،لیکن الیکشن میں زیادہ تا خیر بھی نہیں ہو نی چا ہئے ،حکمران اتحاد کی پوری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن سے ہی باہر کر دیا جائے ، کیو نکہ پی ٹی آئی کے ہوتے اتحادیوں کا الیکشن جتنا ناممکن دکھائی دیتا ہے ، اس لیے نو مئی کے واقعات کو جواز بنا کر پی ٹی آئی کے خلاف اپنے اہداف پورے کیے جارہے ہیں ،اتحادی جماعتوں کو نومئی کے واقعات سے سیاسی فائدہ کشیدہ کر نے کے بجائے سیاسی عدم استحکام دور کرنیکی جانب تو جہ دینی چاہئے ،

سیاسی استحکام بذاریعہ مذاکرات ہی آئے گا،یہ مذاکرات کیسے اور کس کے ساتھ ہو ں گے ،اس گتھی کو سلجھانا بھی اہل سیاست ہی کی ذمہ داری ہے ۔اہل سیاست نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس پہلے کیا نہ ہی اب کررہے ہیں ،سیاسی معاملات سیاسی انداز میں سلجھانے کے بجائے ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے تمام تر جائز و ناجائز حر بے آزما ئے جارہے ہیں ،کل تک پی ٹی آئی قیادت واحد انتخاب کے سحر میں مبتلا تھی ،آج اتحادی قیادت پسندیدہ و نجات کندہ بنی ہوئی ہے ،لیکن اہل سیاست بھول رہے ہیں کہ یہاں وقت و حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ہے ، آج کے پسندیدہ ،کل نا پسندیدہ بن جاتے ہیں ،اس لیے اپنی سیاسی انتقام کی آگ بجھانے میں اتنا ہی آگے بڑھنا چاہئے کہ واپسی کا راستہ دکھائی دیتا رہے ،دوسر صورت دیگر بدلتے حالات کے ساتھ ہی اپنے ہاتھوں بویا کا ٹنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔
حکمران اتحاد اپنے ماضی سے کچھ سیکھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ، اتحادی سمجھتے ہیں کہ ان کا ایجنڈا کا میاب رہا تو سیاسی مخالف کو مذاکرات کی رعایت نہیں دینی چاہئے ،اس لیے مسلسل مذاکرات سے انکاری ہیں ،لیکن اس بات کو نظر آنداز کیا جارہا ہے کہ مذاکرات کے بغیر انتخاابات قابل قبول ہوں گے نہ ہی انتخابات کے بعد سیاسی استحکام لایا جاسکے گا ، بلکہ مز ید انتشار بڑھنے کے امکا نات دکھائی دیے رہے ہیں ،اتحادی جتنا مرضی پی ٹی آئی کو دیوار سے لگاتے رہیں ، پی ٹی آئی کے خاتمے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو پائے گا ، سیاسی پارٹیاں طاقت کے زور پر زبردستی پہلے ختم ہوئیں نہ ہی اب کسی پارٹی کا بزور طاقت خاتمہ کیا جاسکے گا ،یہ دبی چنگاری کسی بھی وقت ہوئوں کے بدلنے پر آگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے ،اگر یہ آگ دوبارہ بھڑکی تو اس پر قابو نہیں پایا جاسکے گا۔
اتحادی حکومت سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی سانحہ نومئی عذر بنا کر ریاستی ہتھکنڈوں کے ذریعے نہ صرف تحریک انصاف کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے ،بلکہ انتخابات بھی مزید مؤخر کرنے کے در پے نظر آتی ہے، حالا نکہ انتخابات ہی سیاسی جماعتوں کو عوام کی طرف سے بولنے اور پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کرنے کا جواز و استحقاق فراہم کرتے ہیں،اگر حکومت ایسے ہی مقررہ آئینی مدت سے تجاوز کر تی رہے گی اور انتخابات ٹالنے کی ایسے ہی کوشش کی جاتی رہے گی تو اسے آئین کی خلاف ورزی کا ہی نام دیا جائے گا،انتخابات کے انعقاد کا تومقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عوام اپنی پسند کے لوگوں یا پارٹی کو اقتدار تک پہنچا سکے، اس کا مطلب ہر گز نہیں ہو تا کہ حکمران جماعتیں صرف اس وقت ہی انتخاب کروائیں کہ جب انہیں اپنے جیتنے یا اپوزیشن کے ہارنے کا یقین ہو جائے، یہ طریقہ جمہوریت کو دفن، آئین کو مسترد اور نظام پر عوامی اعتماد کو تباہ کرنے کے مترداف ہو تا ہے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ سانحہ نومئی انتہائی افسوسناک واقعہ ہے،اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، لیکن اس واقعے کی محض تشہیر کرتے رہنے کے بجائے اب قوم کو آگے بڑھتے ہوئے ہونے والے نقصان پر قابو پانے کی کوشش کرنا ہوگی، یہ اتحادی حکومت کا کام ہے کہ اس واقعے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مزید استعمال کر نے کے بجائے ایسے اقدامات کرے کہ جس کے باعث ایسا واقعات آئندہ نہ ہو نے پائیں ،لیکن حکومت اپنے ہاتھ آیا موقع ضائع کرنا ہی نہیں چاہتی ہے ،اس لیے اسکا اپنے مخالفین کے خلاف بھر پور استعمال کیا جارہا ہے

،تاہم انتخابات ٹالنا، عدالتوں کو دبائومیں لانا یااحتجاج کرنے والے عام لوگوں کو فوجی عدالتوں کے سپرد کرنا مسئلہ کا حل نہیںہے،سیاسی قیادت جب تک اپنے معاملات مل بیٹھ کر سیاسی انداز میں حل نہیں کریں گے ،تب تک حالات جوں کے توں ہی رہیں گے ،بلکہ مزید ابتری کا ہی شکار ہوں گے ،اتحادی حکومت کو بدلتے حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی روش بدلنی چاہئے ،بصورت دیگر اپنے مخالفین کو مائنس کرتے خود بھی نااہل ہو گئے تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ،سب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں