اس دور میں جینا مشکل ہے ! 36

سیاسی انجینئرنگ کا کھیل!

سیاسی انجینئرنگ کا کھیل!

اس وقت ملک میں دو کام بہت تیزی اور کھلم کھلا کئے جا رہے ہیں، اول، تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے کنگز پارٹی کے طور پر ایک دونئی سیاسی جماعتیں تشکیل دی جا ری ہیں اور دوسرا ،کچھ لوگوں کی شخصیت سازی ان جماعتوں کی سربراہی کی غرض سے کی جارہی ہے ،اگر ان مجوزہ جماعتوں کے قائدین کے ناموں پر غور کیا جائے تویہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ وہ اپنے انتخابی حلقوں میں کامیابی اپنے زور پر حاصل کر پائیںگے ،اس کے باوجود ایسے لوگوں کی قیادت میں سیاسی جماعتیں سامنے لائی جائیں گی تو ان کی حیثیت بلوچستان کی باپ پارٹی سے زیادہ نہیں ہوگی، جو کہ صرف مائی باپ کی خوشنودی تک قائم رہ سکیں گی اور ان کی خوشنودی کیلئے ہی کام کریں گی۔
سیاست میں مداخلت پہلے بھی ہوتی رہی اور اب بھی ہورہی ہے ،لیکن عوام کو یہی باور کروایا جارہا ہے کہ غیر جانبدار رہیں گے اور سیاست میں دخل نہیں دیں گے ،اگر اس فیصلے پر عمل ہوتا تو حالات اتنے نہ بگڑتے ،لیکن ایسا نہ ہوسکا اور پہلے دھیمے سروں میں اور نومئی کے افسوسناک واقعات کے بعد پوری شدت کے ساتھ سیاست میں دخل اندازی جاری ہے ،جبکہ اتحادی حکومت آلہ کار بنی ہوئی ہے،اس کا اولین ہدف پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی قیادت کو سیاست سے مائنس کر نا ہے، تحریک انصاف کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے قیادت کو ایسی بندگلی میں پہنچا دیا گیاہے کہ جہاں سے انہیں نکلنے کا کوئی راستہ نظرہی نہیں آرہا ہے

،اتحادی قیادت کے خیال میں پی ٹی آئی اور اس کی قیادت مائنس ہو چکی ہے ،لیکن کیا ایسے کسی پارٹی اور قیادت کو مائنس کیا جاسکتا ہے ؟یہ درست ہے کہ اس طرح سیاسی پارٹیاںاور قیادت کبھی مائنس ہوتے ہیں نہ ہی انہیں عوامی منشاء کے بغیر مائنس کیا جاسکتا ہے ، ملک کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ،لیکن حکمران قیادت اور طاقتور حلقے تاریخ سے سبق سیکھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں ، ایک بار پھر پرانے سکرپٹ کو نیا کرکے دہرایا جارہا ہے ،یہ سیاسی انجینئرنگ کا کھیل نیا ہے

نہ ہی کھلاڑی انجانے ہیں،اس میں کل کے ولن آج کے ہیرو اور آج کے ولن کل کے ہیرو ہوں گے، اس کھیل کے اوگنائزر جو کردار جو کر دار دیتے ہیں ،وہ اسے نبھاتا ہے، اس کھیل میں اہل سیاست ایک جیسا کردار ادا کرتے تھکے نہ ہی اگنا ئیزر رول بند کرنا چاہتے ہیں ،اہل سیاست کو آلہ کاری پر ملا ل ہے نہ ہی طاقتور حلقوں کے ہاتھ کنٹرول پر اعتراض ہے،اگر اقتدار اُن کے پاس بھی چلا جائے تو اہل سیاست معاون کے طور پر شریک اقتدار ہوکر فرائض بجا لانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ہیں اور اگر پس پردہ ر ہتے ہوئے اقتدار کے تخت پر بٹھایا جاتا ہے تو اس پر بھی جشن آرائی کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ کٹھ پتلی تماشا عر صہ دراز سے جاری ہے ،اس پتلی تماشے میں جب بھی کسی نے حقیقی ہیرو بننے کی کوشش کی ہے، اس کھیل کے ہدایت کار اسے اوقات میں رکھنے کے لیے نہ صرف کھیل سے باہرکیا، بلکہ اس پر کھیل کی دروازے بھی بند کردیئے جاتے ہیں، اہل سیاست جتنا مرضی باور کرانے کی کوشش کرے کہ اس کا عروج عوام کاعطا کردہ ہے ،جبکہ سب جانتے ہیں کہ جنہوں نے ہیرو بنیا وہی زیرو بنانے کی طاقت رکھتے ہیں ، عوام کو کبھی فیصلہ سازی میں شامل کیا گیا نہ ہی حق رائے دہی دیا جاتا ہے

، یہ بند کمروں کے فیصلے کل بھی عوام پر مسلط کیے جاتے رہے اور آج بھی کیے جارہے ہیں ، عوام کے انتخابات کا مطالبہ کسی نے مانا نہ ہی عوام کو حق احتجاج دیا گیا ، اگر عوام نے اپنے حق راہے دہی کیلئے احتجاج کیا تو اس احتجاج میں بھی انتشار شامل کر کے عوام کو ہی مود الزام ٹھریاجارہا ہے ، ایک طرف اہل سیاست ہیں تو دوسری طرف عام عوام ہیں ، اہل سیاست کے ہاتھ میں ایک ہی اسکرپٹ ہے، نو مئی کے واقعات کی مذمت اور مقتدرہ سے وفاداری کا حلف نامہ پریس کانفرنس میں پڑھتے ہوئے رہائی پارہے ہیں،

سارے گناہ خطائیں دھلتی جارہی ہیں ،جبکہ عام ہزاروں مرد وخواتین کار کنان جیلوں میں بند ہیں ،لیکن انہیں حلف نامہ، پریس کا نفرنس اور مقتدرہ سے وفاداری کے اظہار میں نجات کی کوئی سہولت نہیں دی جارہی ہے۔اس ملک میں عام آدمی کا کوئی پر سان حال نہیں ہے ، یہاں پر عام آدمی کو بڑی بے در دی سے سارے ہی استعمال کررہے ہیں ،یہ عوام کے نام پر اقتدار میں آتے ہیں ،یہ عوام کے ساتھ ہی احتجاج کر تے ہیں ، یہ عوام پر ہی زبر دستی مسلط ہو کر عوام کی گر دن پر مہنگائی کی چھریاں چلا تے ہیں

، یہ عوام سے روٹی کا کنوالہ تک چھنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں ،اس کے بعدبھی ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں ، انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے ، جبکہ حقائق با لکل بر عکس ہیں ، عوام ان کے ساتھ ہیں نہ ہی کو ئی اُمید لگائے بیٹھے ہیں ، عوام کی نفرت کی ایک جھلک سب نے دیکھی ہے ، یہ نفرت زبانی کلامی باتوں سے کم ہو نے والی ہے نہ ہی بزورطاقت ختم کی جاسکے گی ،پا کستانی عوام کا مزاج ہے کہ بہت کچھ سہہ جاتے ہیں ،لیکن جب بھی ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے تو پھر عام حالات میں چپ کا مجسمہ بنے والے ووٹر ظالم بن جاتے ہیں ،وہ اپنے پر سارے ظلم تشدت کا بدلہ لیتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے ساری زمین ہی ہل کررہ گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں