اس دور میں جینا مشکل ہے !
عوام پر پہلے ہی خوف ولرزہ طاری ہے،اس پر نو مئی کی آڑ میں مزید خوف ہراس پھلایا جارہا ہے ،نومئی کو جو کچھ ہوا نہیں ہو نا چاہئے تھا ،اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،لیکن اس کے ذمہ داروں کے ساتھ کوتاہی کرنے والوں کو بھی سزائیں ملنی چاہئے ،اس واقعے کی جتنی اپوزیشن پر ذمہ داری ڈالی جارہی ہے ،اس سے زیادہ حکومت نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے ،لیکن حکومت شر مندگی کا اظہار کر نے کے بجائے اسے اپنی سیاست کیلئے استعمال کررہی ہے ،حکمران اتحاد کی اولین تر جیح اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینا ہے
،جبکہ عام شہری کی زندگی ،اس کے مسائل،اس کی کم ہوتی روزمرہ کی سہولیات،اس کے جان و مال کا تحفظ ،بیروزگاری اور ان سب پر مستزاد مہنگائی کی بے قابو ہوتی صورتحال کی کوئی فکرہی نہیں ہے ،یہ 23کروڑ عوام کی بدنصیبی ہے کہ انہیں زور زبر دستی چند ہزار مفاد پرستوں اور مراعات یافتگان کے ہاتھوں یرغمال بنادیا گیا ہے۔
اس ملک میں ایک عام آدمی کے لئے سماجی اور معاشی صورتحال کبھی بھی قابل رشک نہیںرہی ہے، مگر گزشتہ چند برس سے ریاست اور سیاست کے معاملات جس طرح چلائے جارہے ہیں، اس نے عام شہری کے لئے زندگی کو ایک عذاب بنادیاہے،عوام کو مائنس پلس سے غرض نہیں ،عوام اپنی زندگی میں آسانی چاہتے ہیں ،مگر حکمرانوں کی ترجیھات میں عوام کہیں بھی نہیں ہیں، اگرصرف روزمرہ ضروریات کی اشیا ء کی ہی بات کی جائے
تو روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان کا حصول مشکل تر کردیا ہے،آٹا، دالیں، چاول ،چینی، کوکنگ آئل، دودھ، چائے کی پتی،سبزیاں اورچکن جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کا کوئی بھی جواز دیا جائے، لیکن یہ حکومت کی ہی ناکامی ہے کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور ان کی نگرانی کا کوئی موثر انتظام دکھائی دیے رہا ہے نہ ہی یو ٹیلٹی بلوں میںبتدریج اضافہ روکا جارہا ہے، اچھی تعلیم اور بہتر صحت کی سہولیات تو اب محض امراء و اشرافیہ ہی کے لئے ہی رہ گئی ہیں،اس دور حکومت میں عوام کے لئے تو بس اب خالی دعائیں ہی رہ گئی ہیں۔
اس ملک کے حکمران عوام سے کتنے بے غرض سے ہوتے جارہے ہیں ، اس کا اظہار حکمرانوں کے بیانات سے ہوتا ہے، یہ و زیر اعظم شہباز شریف ہی کے الفاظ تھے کہ میں غریبوں کو سستا آٹا فراہم کرونگا ، اس کیلئے چاہے مجھے اپنے کپڑے ہی کیوں نہ بیچنا پڑیں،معلوم نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کو اس بات کی خبرہے بھی ہے کہ نہیں ، آج آٹا کس قیمت پر فروخت ہو رہا ہے او ر وہ کہیں کمیاب ہے
،حکمران جوش خطابت میں جو چاہیں کہہ دیں، انہیں اپنی باتوں پر کو نسا عمل کرنا ہے اور کس نے پو چھنا ہے ،کون ہے جو ان سے باز پرس کرے گا؟ ایک ایسی ریاست جس کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالنے کے لئے قرضے بھی اب دستیاب نہیں ، اس کے حکمرانوں کو غیر ملکی دوروں سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہے۔
کیا موجودہ معاشی صورتحال میں حکمرانوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ان مشکل حالات میں اپنے اخراجات کم کریں،سادگی اختیار کریں اور ملکی اور غیر ملکی دوروں سے احترازکریں،عوام جن کی خدمت کا زبانی کلامی دعوئے کرتے حکمرانوں کی زبانیں نہیں تھکتیں، اپنے طرزعمل اور بود و باش سے بھی تو ثابت کریں
کہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی ریاست کے حکمران ہیں، ہمارے حکمران قیمتی لباس زیب تن کئے جب غیر ممالک میں قرضوں کے لیے دست کشکول پھیلا رہے ہوتے ہیں تووہاںکے حکمران ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور منافقت پرنہ جانے کیا کچھ سوچتے ہونگے؟ اس سوچ کا ہی عمل دخل ہے کہ سب ہی قرض دینے سے انکار کر رہے ہیں ،اس کے باوجود حکمران اپنی روش بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
عوام کب تک حکمرانوں کی نااہلیوں اور عیاشیوں کو بوجھ تنے تنہا اُٹھاتے رہیں گے ، عوام کب تک زبر دستی مسلط کردہ حکمرانوں کو بر داشت کرتے رہیں گے ، عوام کب تک طاقت کے زور پر خوف و ہراس کی فضا میں سانس لے سکیںگے ، آخر کار دبی راکھ میں دبی چنگاری آگ بن کر بھڑک ہی اُٹھے گی،اس سے پہلے کہ ایسا وقت آئے عوام کو سوچنا ہو گا کہ وہ بار بار ان آزمائے ہوئے لوگوں کو ہی آزماتے رہیں گے یا اپنے اندر سے درد دل رکھنے والے، شریف و سادہ، امانت و دیانتدار اور خدمت کے پیکر لوگوں کو بھی قوم کی تقدیر سنوارنے کا موقع دیں گے،بصورت دیگر ہر آنے والے دور میں عوام کا جینامشکل سے مشکل تر ہی ہوتا جائے گا