ڈی آئی خان میں چلڈرن ہسپتال/وقت کی اہم ضرورت
تحریر، نثاربیٹنی
صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کی اگر بات کی جائے تو ڈیرہ اسماعیل خان شہر جنوبی اضلاع کا ایک اہم ترین شہر ہے جہاں اس کی سرحدیں پڑوسی اضلاع لکی مروت، ٹانک اور بلوچستان کے شہر ژوب سے ملتی ہیں وہاں پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان، بھکر اور میانوالی کی سرحدیں بھی ڈی آئی خان سے متصل ہیں، علاقہ کا بڑا شہر ہونے کی بنا پر کاروباری و ضرورتمند افراد ڈیرہ اسمٰعیل خان کا رخ کرتے ہیں،
ان ضروریات میں سب سے اہم صحت کی ضرورت ہے گوکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتان اور مفتی محمود ہسپتال کی صورت میں دو بڑے ہسپتال موجود ہیں جہاں ڈی آئی خان کے علاوہ ٹانک، پیزو، درازندہ، بھکر، وانا، جنڈولہ، مکین اور ملحقہ علاقوں کے مریض لائے جاتے ہیں، قابل غور بات یہ ہے کہ ان مریضوں میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہوتی ہے، ان دو ہسپتالوں کے علاوہ ڈی آئی خان شہر میں بیسوں پرائیویٹ ہسپتال اور کمپلیکسز خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن پاکستان کا مستقبل یعنی بچوں کے بہتر علاج کے لیے کوئی مناسب اور مخصوص ہسپتال موجود نہیں، عرصہ دراز سے یہاں چلڈرن ہسپتال کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے، ڈی آئی خان شہر پر صحت کے حوالے سے اس وقت بہت زیادہ دباؤ ہے
اور ڈی آئی خان کی لاکھوں کی آبادی کے علاوہ پڑوسی اضلاع تک کے مریض بھی یہاں کے سرکاری ہسپتالوں اور صحت کے پرائیویٹ اداروں سے مستفید ہوتے ہیں، خال خال ترقیاتی کاموں اور صحت کی کچھ نہ کچھ مناسب سہولیات کے باوجود ڈی آئی خان کے زیادہ تر مریض جن میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے انہیں ملتان، پشاور یا اسلام آباد لے جایا جاتا ہے اس کی سب سے اہم وجہ یہاں بچوں کے لیے مخصوص اسپتال کا نہ ہونا ہے،
پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت اور ماضی کی باقی ساری حکومتوں کے منتخب نمائندوں نے ہمیشہ یہاں پر چلڈرن ہسپتال کی تعمیر کا وعدہ کیا لیکن ابھی تک یہ وعدہ پورا ہوتا نظر نہیں آرہا، ڈی آئی خان کے زنانہ ہسپتال میں روزانہ درجنوں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے، کئی سال قبل تعمیر ہونے والے زنانہ ہسپتال کے لیے شاید اب مزید بچوں کی دیکھ بھال کی گنجائش ممکن نہیں اور ہسپتال پر بچوں کے اس بڑھتے دباؤ سے یہاں زیادہ بہتر سہولیات فراہم کرنا شاید ممکن نہیں رہا اس لیے بچوں اور خواتین مریضوں کی بہت زیادہ تعداد پرائیوٹ ہسپتالوں اور کمپلیکسز کا رخ کرتے ہیں جن کے اخراجات ایک متوسط اور غریب خاندان کے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں،
ہر حکومت کی ترجیحات میں تعلیم، صحت اور انصاف سب سے پہلے پوزیشن پر ہوتے ہیں لیکن ڈی آئی خان کی سطح پر صحت کے حوالے سے خصوصا” بچوں کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے، سابقہ حکومتوں نے دیگر ترقیاتی کاموں پر توجہ ضرور مرکوز رکھی لیکن اس ملک کے مستقبل یعنی بچوں کی پیدائش اور ان کی بہتر نشوونما اور علاج معالجے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جو ایک قومی غفلت ہے، گو کہ ڈی آئی خان کی سطح پر بچوں کے لئے بڑے اچھے اسپیشلسٹ ڈاکٹر موجود ہیں لیکن بڑھتی آبادی اور بچوں کی زیادہ پیدائش کے پیش نظر ڈیرہ اسماعیل خان میں بچوں کے ہسپتال کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے، اس وقت وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے
اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں قائم نگران حکومت میں وزراء کی اکثریت جمعیت اور پی پی پی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مواصلات و تعمیرات کی وزارت مولانا اسعد محمود کے پاس ہے جو مولانا فضل الرحمن کے فرزند ہیں جبکہ وزارت اطلاعات کے مشیر پی پی پی کے فیصل کریم کنڈی ہیں لہذا دونوں پارٹیاں اور شخصیات چلڈرن ہسپتال کی تعمیر کی منظوری کرواسکتے ہیں بشرط کہ کروانا چاہیں کیونکہ مولانا فضل الرحمن اور فیصل کریم کنڈی ماضی میں بھی یہاں سے ایم این ایز بن چکے ہیں
کہ نگران صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں چلڈرن ہسپتال کے قیام کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھائے اور ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کرے تاکہ یہاں کے سینکڑوں بچے جو صحت کی اچھی سہولیات کے منتظر ہیں انکی بہتر افزائش، شرح اموات کی پیش بندی اور ان بچوں کی بہتر پرورش اور علاج معالجہ کرکے صحت مند نسل کو پروان چڑھایا جاسکے