تین دن میں اپنی موت کے مقامات پر پہنچنے کے لیے نکلو! 36

تین دن میں اپنی موت کے مقامات پر پہنچنے کے لیے نکلو!

تین دن میں اپنی موت کے مقامات پر پہنچنے کے لیے نکلو!

سن 02ہجری ?(624 عیسوی)میں کفار مکہ  کا ایک بڑا مسلّح لشکر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طر ف چل نکلا تھا۔کفار کا یہ قافلہ آٹھ دن کے بعدمقام بدر پر پہنچ گیا تھا (بدرایک گائوں کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے80 میل کی مسافت پر واقع ہے اور شام سے مدینہ منور ہ جانے کا راستہ دشوار گزار گھاٹیوں میں سے گزرتا ہینیز یہاں ہر سال ایک میلہ بھی لگتا تھا)۔کفار مکہ کے اس قافلے کی آمد سے مدینہ منورہ کے مسلمان بھی بے خبر نہیں تھے
۔لہٰذا کفار کا مقابلہ کرنے کیلئے رسو ل خدا    ﷺنے صحابہ کرام ? کو جمع کیا اور ان کی رائے معلوم کی  اور ایک پرجوش عسکری  قافلہ جو تین سو تیرہ (313) صحابہ? پر مشتمل تھا کو لے کر 12 رمضان المبارک بروز ہفتہ مدینہ منور سے نکلے اور مدینہ منورہ سے ایک میل کے  فاصلہ پر  ’’بئرِ ابی عن…
]2:05 am, 11/06/2023[ اعجاز خان میو: کوئی نہیں   سب سے بڑھ کر ساتھی چاہئے
ماہ صفر کی28 ویں تاریخ 11ہجری  ((632   کو حضور  ﷺ بیمار ہوئے۔چونکہ آپﷺ  اس بیماری سے جانبر  نہ ہوسکے۔ اس لئے اس کو مرض وفات کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔  جب تک آپﷺ  کے جسم میں طاقت تھی خود مسجد میں جاکر نماز پڑھاتے رہے لیکن جب بدنی طاقتوں نے جواب دے دیا تو آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق   ?   کو امامت نماز کا حکم دے دیا۔ عام طور پرلوگوں میں مشہور ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق   ?  نے حضورﷺ  کی زندگی میںسترہ نمازیں پڑھائی ہیں۔ ان ہی نمازوںمیں وہ نماز بھی ہے جس میں افاقہ کے رونما کی وجہ سے حضور  ﷺمسجد میں تشریف لے گئے تھے اور حضرت ابو بکر صدیق   ?  کے بائیں پہلو میں بیٹھ کر
 تما م لوگوں کو خود نماز پڑھائی۔ اس صورت میں حضورﷺ  امام بن گئے اور حضرت ابوبکر صدیق  ?  مقتدی کیونکہ حضرت صدیق اکبر  ?    جہر سے نماز پڑھا رہے تھے اس لئے آپﷺ نے وہیں سے قرات شروع کی جہاں تک حضرت صدیق اکبر  ?  پہنچے تھے۔ ان میں وہ نماز بھی ہے جس  میں حضورﷺ   نے پردہ اٹھاکر مسلمانوں کی جماعت کا نظارہ کیا تھا اور قلبی خوشی کے سبب آپﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے تھے۔ تجلی نبوت سے صفیں درہم برہم ہونے کو تھیںکہ پردہ ڈال دیا گیا اور آپ    ﷺواپس بستر شریف پر تشریف لے گئے۔ ان ہی نمازوں میں وہ نماز بھی شامل ہے جس میں آ نحضور ﷺمسجد میں جاکر جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق   ?   بدستو ر امام جماعت رہے ہیں۔ 
حضرت عائشہ صدیقہ ? سے روایت ہے:
’’خدا کے رسول  ﷺ  نے اپنی اس بیماری میں جس میں وفات پائی ابو بکر   ? کے پیچھے بیٹھ کر  نماز پڑھی۔‘‘
اسی قسم کی ایک روایت حضرت انس بن مالک   ?  سے بھی منقول ہے۔      
    ’’اتفاقاً مرض وفات کے ہی ایام میں سے کسی ایک نماز کے موقع پر حضرت ابو بکر ?   موجود نہ تھے۔حضرت عبداللہ بن زمعہ   ?  نے حضرت عمر فاروق   ?  سے کہہ دیا تم نماز پڑھادو۔ حضرت عمر فاروق   ?  نے تکبیر تحریمہ کے بعد قرات شروع کی تو حضور ﷺنے  سنتے ہی فرمایا:
’’نہیں نہیں ابو قحافہ? کے بیٹے کے علاوہ کوئی امامت نہ کرائے۔‘‘
چنانچہ حضرت عمر فاروق   ?  نے اسی وقت نماز توڑدی اور حضرت ابو بکر ?  کو بلا کر نبوی مصلے پر کھڑا کیا گیا۔ مرض الوفات کی امامتِ  حضرت ابو بکر صدیق ?  کومعمولی اور سرسری نگاہوں سے ہرگز نہ دیکھیں
اس میں سینکڑوں حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ہزاروں سربستہ را ز ہیں۔حجتہ الوداع میں حضور ﷺنے مسلمانوں کو الوداع کہا کیونکہ جزیرہ العرب کے کفر وشرک کے استیصال،اسلام کی اشاعت، شریعت و مکارم اخلاق کی تعلیم،تکمیل دین کے آخری فرائض سے سبکدوشی اور الیوم اکملت لکم دینکم کی تصدیق کے بعد آنحضو ﷺ کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا تھا۔
اس کے بعد روح قدسی کو عالم جسمانی  میں رہنے کی ضرورت باقی نہ رہ گئی تھی۔اس لئے حجتہ الوداع سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ واپس تشریف لانے کے بعد عالم آب وگل  چھوڑنے اور رفیق اعلیٰ سے ملنے کی تیاریوں میں مشغول ہوگئے۔زیادہ وقت تسبیح وتہلیل میں بسر ہونے لگا۔ 
آنحضورﷺکے دل پر شہداء میں سے شہدائے اُحد کا بڑا اثر تھا کیونکہ شہدائے اُحد نے بڑی بے کسی سے جان دی تھی۔ اس لئے آپ  ﷺمدینہ واپسی کے بعد ان کی قبروں پر تشریف لے گئے اور ان سے اس طرح رخصت ہوئے جس طرح ایک مرنے والا اپنے اعزہ کو الوداع کہتا ہے۔اس کے بعد ایک مختصر خطبہ دیا، جس میں فرمایا!
’’میں تم سے پہلے حوض ِ کوثر پر جارہا ہوں اس کی وسعت اتنی ہے جتنی ایلہ سے حجفہ تک مجھ کو دنیا کے تمام خزانوں کی کنجی دی گئی ہے۔ مجھ کو اس کا خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک میں مبتلا ہونگے۔البتہ اس سے ڈرتاہوں کہ اس دنیا میں مبتلا نہ ہوجاو?اور اس کے لئے آپس میں کشت وخون نہ کرواور اس طرح ہلاک نہ ہوجاو? جس طرح تم سے پہلے کی قومیں ہلاک ہوئیں۔‘‘ 
11 ہجری ما ہ صفر کی 18یا 19 تاریخ تھی کہ رسول اللہ ﷺ  آدھی رات کے وقت جنت البقیع میں تشریف لے گئے اور اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دعا کی
۔ گھر واپس تشریف لائے تو سردرد اور بخار ہوگیا۔جو رفتہ رفتہ بڑھتا گیا۔بیمار ہوئے پانچ روز گزر گئے تو آپﷺ نے دوسری سب ازواج سے اجازت لے کر حضرت  عائشہ? کے حجرے میں قیام فرمایا۔ بیماری کی حالت میں بھی آپ  ﷺنے پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھائیں۔زمانہ علالت میں ایک دن نماز کے بعد منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دیا۔جس میں فرمایا:
’’اللہ نے اپنے بندے کواختیار دیاکہ چاہے وہ دنیا کی نعمتوں کو قبول کرے اور چاہے تو اللہ کے پاس جاکر جو نعمتیں ملنے والی ہیں ان کو قبول کرے۔اس بندے نے اللہ کے پاس جاکر ملنے والی نعمتوں کو قبول کیا۔‘‘ 
یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق?  رونے لگے کیونکہ وہ اپنی فراست ایمانی سے حضور ﷺکے ارشاد کی تہہ کو پہنچ گئے اور سمجھ گئے کہ حضورﷺنے جس بندے کا ذکر کیا ہے وہ  خود آپ ﷺہیں۔انہوں نے بے تاب ہوکر عرض کیا:
’’نہیں یارسول اللہﷺ ہم اپنی جانیں اور ماں باپ آپ  ﷺ پر قربان کردیں گے۔‘‘
حضور  ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق ?  سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’اے ابو بکرؓ! رو مت،  میںسب سے زیادہ جس کی رفاقت اور مال کا احسان مند ہوں وہ ابوبکر ?ہے۔اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکرؓکو بناتا۔ لیکن اسلام کی اخوت اور محبت ہی کافی ہے۔مسجد کے رخ کوئی دروازہ ابوبکرؓکے دروازہ کے سوا باقی نہ رکھا جائے۔‘‘  (صحیح بخاری )
کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ?  کا  ایک مکان مسجد نبویﷺ سے متصل تھا۔اس کا دروازہ مسجد کے صحن میں تھا۔(یہ مکان انہیں ر سول اکرم  ﷺنے عطا فرمایا تھا)۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ حضو ر ﷺ کی علالت شروع ہونے سے پہلے پیش آیا۔اس روایت کے مطابق حجتہ الوداع سے واپس تشریف لانے کے بعدایک دن طویل خطبہ دیا۔جس میںمذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ  ان کو سن کررونے لگے تو لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ رونے کا کونسا موقع ہے۔ (صحیح بخاری باب الفضائل الصدیق)
جب حضور ﷺکی بیماری حد سے بڑھ گئی تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ ابو بکر ?سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓنے عرض کیا:
’’وہ رقیق القلب آدمی ہیں جب قرآن پڑھتے ہیں تو بہت روتے ہیں، آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو نماز نہ پڑ ھاسکیں گے۔‘‘
لیکن حضور ﷺنے پھر فرمایا کہ نماز ابو بکر ؓ ہی پڑھائیں۔ اس کے بعد حضرت عائشہ صدیقہؓکے ایماء پر حضرت حفصہؓؓنے بھی یہی بات حضور  ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کی تو حضور  ﷺنے جھڑک کر اپنے ارشاد کی تعمیل پر زور دیا۔ چنانچہ پنج شنبہ کی نمازعشاء کے وقت حضرت ابو بکر صدیقؓ نے مسجد نبوی ﷺمیں مسلمانوں کو نماز پڑھانی شروع کی اور دوشنبہ کی فجر تک سترہ نمازیں پڑھائیں۔ اس دوران ایک دن حضورﷺ مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت حضرت ابو بکر صدیقؓلوگوں کو نماز پڑھارہے تھے۔آہٹ پاکر انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ  ﷺنے اشارہ سے روک دیا۔پھر ان کے پہلو میں بیٹھ کر نما ز پڑھائی۔
وفات کے وقت آ نحضرتﷺ کا  سر مبارک حضرت عائشہ صدیقہؓکی آغوش میں تھا کہ اسی اثنا میںحضرت ابو بکر صدیقؓکے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن ؓحاضر ہوئے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپ ﷺنے بہ نظر  رغبت اس کو دیکھا۔حضرت عائشہ صدیقہ ? نے مسواک لے کر پہلے خود چبا کر نرم کیا پھر حضورﷺ کے دست مبارک میں تھمادی۔ آپﷺ نے پوری قوت سے اس کو دندان مبارک پر پھیر کر رکھ دیا۔ اس وقت بے چینی انتہا کو پہنچ گئی اور جسم ڈھیلاپڑ گیا۔ اس حالت میں آپ  ﷺنے تین بار   
’’بَلِ الرَّفِیْقُ اْلاَعْلٰی‘‘
 (اب اور کوئی نہیں  وہی سب سے بڑھ کر ساتھی چاہئے۔)
کے الفاظ ارشاد فرمائے اور اس کے ساتھ ہی آفتاب رسالت اللہ تعالیٰ کی شفق رحمت میں غروب ہوگیا۔
مردہ  ابن الزبیر حضرت امام زین العابدین اور عبداللہ بن عباسؓ  سے مروی ہے کہ وفات کے وقت آنحضرت ﷺسیدنا علی المرتضیٰ ؓؓؓؓ  کی گود میں تھے۔ (الطبقات ابن سعد)
سیدنا علی المرتضیٰ ؓنے آنحضرت ﷺکی ٹھوڑی(تھوڑی) کو سہارا دیا تھا۔ 
آنحضرتﷺ نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا کہ تجہیز وتکفین اہل بیت کر یں گے۔ جب حضور ﷺ نے انتقال فرما یا تو صحا بہ  ?  کا عجب  حال تھا۔ سیدنا علی المرتضیٰ ?   پر سکتہ سا طاری ہوگیا تھا۔ صرف حضرت ابوبکر  ؓ   اور حضرت عباس ؓ  ہوش میں تھے۔ تھوڑی دیر بعدسیدنا علی المرتضیٰؓ   نے تجہیز اور تکفین کا انتظام بھی  بنی ہاشم کی مدد سے شروع کیا۔ 
حضرت ابوبکرؓ   اور حضرت عثمان  ؓ آنحضرت ﷺ کی تجہیز اور تکفین سے پہلیثقیفہ بنی ساعدہ میں چلے گئے تھے۔غسل میں سیدنا علی المرتضیٰ ؓ  ،حضرت عباس ؓ،حضرت فضل ؓ، حضرت قثمؓ پسران حضرت عباس ?، حضرت اسامہ ابن زید  ؓ اورحضرت شقران  ?  غلام آنحضرت ﷺ ااورحضرت اوس بن خولی انصاری بدری ?  شامل تھے جنہوں نیسیدنا علی المرتضیٰؓ  سے غسل میں شامل ہونے کیلئے بہت اصرار کیا تھا اور سیدنا علی المرتضیٰ ؓنے انہیں بلوالیا تھا۔
سیدنا علی المرتضیٰ ؓ  غسل دیتے تھے۔ حضرت عباسؓ  اور ان کے دونوں بیٹے کروٹ بدلاتے تھے۔ حضرات اسامہ،شقران اور اوس ابن خولی   پانی لاتے تھے۔ آنحضرتﷺ کو مع لباس غسل دیا گیا تھا۔
غسل دیتے وقت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ   فرماتے تھے:
’’ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ کس قدر پاکیزہ ہیں جس قدر صفائی اور پاکیزگی زندگی میں مزاج میں تھی اب بھی آپ اسی قدر پاک وصاف ہیں۔‘‘ 
غسل کے بعد کفن پہنا چکے تو سب نے ایک ایک کر کے نماز پڑھی کیونکہ حضرت عائشہ   ? کے حجرہ میں زیادہ گنجائش نہ تھی۔ سیدنا علی المرتضیٰ ? نے سب سے پہلے نماز پڑھی تھی۔ نماز کے بعد حضرت ابو طلحہ  ? نے لحد کھودی۔ سیدنا علی المرتضیٰ ?، حضرت فضل ? ،حضرت قثم ?،حضرت شقر ان ? اور حضرت اوس ابن خولی ? نے قبر میں اتارا۔
  ایک روایت میں تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے۔
  سیدنا علی المرتضیٰ ? فرماتے ہیں کہ جب تجہیز وتکفین کی تیاری کررہے تھے تو لوگوں کاہجوم روکنے کے لیے دروازہ بند کردیا۔
اس پر انصاری بولے: 
’’ہمارا بھی حق ہے۔ہم ان کے ماموں زاد ہیں۔اسلام میں ہمارا درجہ معلوم ہے۔ ‘‘ 
اور قریش کہنے لگے: 
’’ہم ان کے خاندان والے ہیں۔‘‘ 
اس پر بھی جب دروازہ نہ کھلا تو لوگ سیدنا ابوبکر صدیق  ?  کے پاس آکر شکایت کرنے لگے۔سیدنا ابو بکر صدیق   ? نے فرمایا: 
  ’’مسلمانو! میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں۔ہر قوم اپنے جنازے کی زیادہ حق دار ہے۔اگر تم سب اندر آجاو? گے تو نبی کے خاندان والوں کو آپ سے دور کر دو گے۔ جسے یہ لوگ اجازت دیں وہی اندر جا  ئے۔‘‘ 
لیکن انصار برابر اصرار کرتے رہے۔مجبوراً ان میں سے ایک شخص حضرت اوس بن خولی  کو اندر بلا لیا گیا۔ آپ  ﷺ کو غسل دینے کے لئے نصیحت کے مطابق سیدنا علی المرتضیٰ  ? کے علاوہ سیدنا اسامہ بن زید ،سیدنا فضل بن عباس  اور سیدنا اوس بن خولی شامل تھے ۔ سیدنا فضلؓ پردہ پکڑے ہوئے تھے،انصاری پانی انڈیلتے تھے۔سیدنا علی المرتضیٰؓ   نہلاتے  اور کہتے جاتے تھے: 
’’میرے ماں باپ قربان! آپ وصال سے پہلے اور بعد میں کیسیطیب و طاہر ہیں۔‘‘
کیونکہ آپ ﷺ میں اس طرح کی کوئی کثافت موجود نہ تھی جو عام میت میں ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین غسل دیے گئے۔پانی سعد بن خثیمہ کے کنویں سے لایا گیا تھا۔یہ کنواں قبا میں واقع تھا اور اس کا پانی پیا بھی جاتا تھا۔
غسل کے بعد آپ کے وہ اعضا ء جو سجدے میں زمین سے مس ہوتے تھے کو خوشبو لگائی گئی۔کفن پہنایا گیا۔ کفن میں صرف تین سفید یمنی کپڑے تھے۔ان میں قمیص اور عمامہ شامل نہیں کیا گیا تھا۔                                                                                                         حضور اکرم ﷺکے نماز جنازہ کے لئے دس دس آدمی حجرہ میں داخل ہو تے اور نماز  پڑھ کر نکلتے جاتے۔ پہلی صف جو نماز کے لئے حجرہ میں بنی اس میں حضرات ابو بکر،عمر، عثمان اور علی ? موجود تھے۔ سب نے چار تکبیروں سے آنحضورﷺ کی نماز جنازہ پڑھی۔ 
اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ  بقیع میں دفن کریں جہاں آپ  ﷺ کے بھائی مہاجرین دفن ہیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق  ؓنے اس سے بھی اختلاف کیا۔ پھر صحابہ کرام  ? نے پوچھا کہ آپ کی را ئیکہاں  دفن کرنے کی ہے۔ 
آپنے جواب دیا: 
’’میں نے نبی اکرم  ﷺ کو ایک بات فرماتے سنا ہے اور اب تک اسے بھولا نہیں ہوں۔ آپ  ﷺ نے فرمایا تھا کہ نبی کی روح جس جگہ قبض ہوتی ہے وہیں اسے دفن کیا جاتا ہے۔ ‘‘   
صحابہ کرامنے کہا کہ بخدا آپ کا قول ہر طرح پسند یدہ ہے۔ اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ آپ  ﷺ کو سیدہ  عائشہ صدیقہ?  کے حجرے میں ہی دفن کیاجائے
https://www.youtube.com/watch?v=FDikSS8LOKQ&t=2s

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں