بجٹ سے وابستہ اُمیدیں !
ملک انتہائی سنگین معاشی حالات سے دوچار ہے،اگر انہیں سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو حکومت کو بجٹ بنانے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے،یہ مشکلات کب اور کیسے حل ہوسکتی ہیں، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ حکومت نے بہت سی توقعات آئی ایم ایف پروگرام سے وابستہ کررکھی تھیں ،جوکہ دور تک پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں ،اس کے باوجود حکومت معاشی مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے
،لیکن اس کی ساری کائوشیں اب تک کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہیں ،اس بجٹ سے قبل بھی بڑے بڑے دعوئے کیے گئے تھے ،لیکن بجٹ آنے کے بعد سارے دعوئے دھرے کے دھر ہی رہ گئے ہیں ،اگر یہ بجٹ انتخابی ہے تواس بجٹ پر انتخابات میں کامیابی انتہائی مشوک دکھائی دیتی ہے۔
حکمران اتحاد نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میںمعاشی مشکلات کا کوئی حل نکالے بغیر اپنا دوسرابجٹ تو پیش کردیا ہے
،لیکن اس بجٹ سے عوام کو زرہ سی بھی دلچسپی نہیں ہے ، وہ تو اپنی روز انہ کی دال روٹی کی فکر میں الجھے ہوئے ہیں، عوام نہیں جانتے کہ ملک کس طرح چل رہا ہے ،کون اسے چلا رہا ہے اور آئندہ کیسے چلایا جائے گا،جبکہ آئی ایم ایف کا ڈنڈا مستقل سر پر سوار ہے، ایسے میں مالی سال 2023-24ء کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے،اتحادی حکومت اسے نامساعد حالات میں بہترین بجٹ قراردیے رہی ہے
،لیکن جو حلقے سرکاری خزانے کی حالت سے واقف ہیں، وہ حکومت کی اعلان کردہ کئی سکیموں کو نمائشی اعلانات قرار دے رہے ہیں۔اس ملک میں ہر بجٹ عدادوشماراور نمائشی اعلانات کا ہی گورکھ دھندا رہاہے ،اتحادی حکومت نے بھی پرانی رویت پر چلتے ہوئے بجٹ خسارہ 6ہزار ارب روپے ظاہر کیا ہے،اگریہ چھ ہزار ارب روپے نہیں ملتے تو سوال پیدا ہو تاہے کہ بجٹ سکیموں پر عملدرآمد کیسے ممکن ہو گا،
جبکہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا بھی سامنا ہے،ایک طرف قر ضوں کا بوجھ ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ٹیکس محاصل 6000ارب روپے سے بڑھا کر 9200ارب روپے کئے جائیں،اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے نان فائلر افراد کے بینک سے رقم نکلوانے پر جہاں 0.6 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا،وہیں 200ارب کے اضافی ٹیکسز بھی عائد کئے جا رہے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ موجودہ ٹیکس نیٹ میں پہلے سے شامل لوگوں پر ہی زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا،ملک بھر میں پہلے ہی اشرافیہ کے بجائے عام آدمی زیادہ ٹیکس دیے رہا ہے،اس کے باوجود ہر بار اس پر ہی مزید بوجھ بڑھادیا جاتا ہے ، آئی ایم ایف نے کبھی نہیں کہا کہ امرا ء کو چھوڑ کر عام لوگوں پر ہی ٹیکس لگایا جائے ،مگر ہر حکومت اپنے حواریوںپر کوئی بوجھ ڈالنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے،ہر بار کی طرح اس بار بھی عام آدمی کو ہی قر بانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ، موجودہ غیر معمولی حالات میں ایک غیر معمولی بجٹ پیش کیا جانا چاہیے تھا،
تاکہ حکومت پر عام لوگوں کا اعتماد بحال ہوسکے، مگر ایسا نہیں کیا گیا، ایک بار پھرغریب عوام کا ہی خون نچوڑا جارہا ہے، اگر حکومت تنخواہوں میں کچھ اضافہ کرکے سمجھ رہی ہے کہ عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے، عوام مہنگائی میں ریکارڈ اٖضافہ کے بعدتنخواہوں میں معمولی اضافے سے بہل جانے والے نہیں ہیں۔
حکمران اتحاد زبانی کلامی دعوے تو بہت کرتے رہے ہیں ،لیکن اپنے دیڑھ سالہ دور اقتدار میں عملی طور پرکچھ بھی ڈیلیور نہیں کرپائے ہیں،اس بجٹ سے قبل بھی بہت سے دعوئے کیے گئے تھے ،مگریہ بجٹ پاکستانی معیشت کی ابتر حالت کی ایک بدصورت تصویر پیش کررہاہے،حکومت کے سارے دعوئے ایک بار پھر دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ، عوام کو رلیف دینے کے بجائے مزید بوجھ ہی بڑھایا گیا ہے ، عوام کی بجٹ سے وابستہ ساری اُ میدیں ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں،حکومت قرضوں کے بحران سے نمٹنے، معاشی ترقی کو فروغ دینے اور مہنگائی میں کمی لانے کے دعوئے ہی کرتی رہتی ہے
، لیکن اس کے تقاضے پورے کرنے کی حکمران قیادت میں صلاحیت ہے نہ ہی اس جبر کے ماحول میں آئندہ آنے والوں سے کوئی بہتر ی کی توقع کی جاسکتی ہے،کیو نکہ جب تک ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا ،معاشی حا لات کی بہتر ی کا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا۔اس وقت ملک میں سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام جڑا ہے ،اگر ملک میں سیاسی استحکام لانا ہے تواس کے لیے فوری انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہیں،
لیکن اس سے بھی زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات کے نتائج پر بننے والی سیاسی حکومت آزاد و با اختیا بھی ہو نی چاہئے ،تاکہ وہ جامع منصوبہ بناکر قرضوں کے بوجھ، مہنگائی اور غربت سمیت سارے مسائل کی بنیادی وجوہات کو بہتر طور پر حل کرسکے ، بصورت دیگر اس قوم کے حالات بدلنے کی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے۔