48

سیلاب اور اسکی روک تھام

سیلاب اور اسکی روک تھام

منزہ جاوید اسلام آباد

سیلاب میں ڈوبا پاکستان اور بچارے بیبس انسان جو ہمارے اعلی احکام کی لاپرواء کی نظر ھوجاتے ہیں کبھی پانی کی قلت سے مرتے ہیں تو کبھی بارشوں کے پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور کچھ بے بسی کی تصویر بنے اپنے پیاروں کو روتے اپنے گھر بار مال مویشی سے محروم کھلے آسمان تلے کسی کی مدد کی امید پے راستہ دیکھتے نظر آتے ہیں.خدا کے لیے انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے کوء تجویز کوء تدبیر کیجی? دن بدن پوری دنیا میں موسم میں تبدیلی ھو رہی ہے کبھی درجہ حرات زیادہ تو کبھی بارشیں زیادہ اسکے لیے سر جوڑ کر کوئی حل تلاش کیجیئے
پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام ھے
مطالعہ پاکستان
اگر گورا یہاں نا آتا تو یقین مانیں ہمارا ملک سارا سال پانی میں ڈوبا رہتا۔یہ زرعی ملک نہ ہوتا۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کرے تو 1860 سے پہلے پنجاب زراعت کے لیے نہیں جانا جاتا تھا۔ محقق ڈیوڈ لڈن کے مطابق انگریزوں نے کل ملا کر 33 ہزار 612 کلومیٹر لمبی نہریں کھودیں۔یہ اتنا فاصلہ ہے کہ اس سے لاہور اور لندن کے درمیان ساڑھے پانچ چکر لگائے جا سکتے ہیں۔کچھ لوگ یہ قرار دے رہے ہیں کہ قدرتی آفات فحاشی کی وجہ سے ہم پر اللّٰہ کا عذاب ہیں۔ان سے بہت معزرت کے ساتھ اس سے بڑی غیر منطقی بات کوئی نہیں ہو سکتی۔ اللّٰہ تعالی نے انسان کے ذمے بھی تو کام لگا? ہیں وہ اپنے فرائض پورے کرے پھر اللّٰہ پر چھوڑ دیے اسے توکل کہتے ہیں اللہ کی طاقت اسکی شان ہے اللہ کی طاقت سے انکار نہیں انسان اسکے آگے بے بس ہے

۔ہمیں اپنے اعمال درست کرنے چاہیں اسکے فرمان کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے ۔لیکن وقت اور حالات کے مطابق اہم طریقہ کار اپنانا بھی کرنا ضروری ہے جان کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے باقی اللّٰہ پے چھوڑ دینا چاہیے ۔لیکن جہاں تک ھو سکے بچاؤ کرنا بھی تو فرض ہے پہلے ڈیم بنائیں پانی کے بہاؤ کو روکنے کے لیے اقدام کریں اگر اس کے باوجود سیلاب سے جانی نقصان ھوتا ہے تو اسے ہم عزاب کہیں گے.

اپنا بچاؤ کیے بغیر ہم ہر چیز کو عزاب الہی کہ کر اپنے آپ کو بے بس نہیں کہ سکتے ایک کرائم سروے کے مطابق لاہور شہر میں روازنہ 2 لاکھ سیکس ورکرز فحاشی، عُریانی اور زناء حرامکاری کی ترویج کرتے ہیں جبکہ شُرفاء کے رُوپ میں ”مُعزّز تنظیم سازی” اس کے علاوہ ہے۔لیکن یہاں تو عذاب نہیں آیا۔۔۔بنکاک (تھائی لینڈ) کو sex capital of the world کہتے ہیں، وہ تو آج تک غرق نہیں ہوا۔کیا اللہ کا عذاب ایسا ہوسکتا ہے کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے زناء خانوں پر تو نہ آئے لیکن کوہستان کی وادء تانگیر کے غریبوں پر آجائے؟
تونسہ، کشمور، راجن پُور اور سارے بلوچستان کے غُرباء کو تو ڈبو دے لیکن اسلام آباد لاھور کراچی میں موجود قحبہ خانوں کی رونق برقرار رکھے۔جو لوگ قُدرتی آفات سے نمٹنے کی انسانی مِس مینجمنٹ کو اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں اُن کیلیے دُعا ہی کی جاسکتی ہے۔یاد رکھیے گا کہ فطرت کے ساتھ چھیڑ خانی، قدرتی آبی گُزر گاہوں کے رستے میں قبضہ مافیا کے کنکریٹ کے جنگل کھڑے کرنے اور اپنی جغرافیائی حدود کے اندر موجود پہاڑوں، دریاؤں، جنگلوں، ریگستانوں، کھیتوں اور کھلیانوں کے ساتھ غیر فطری کھلواڑ کرکے غریب اور سادہ لوح انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن کرنے اور اُنکی اموات کا سبب بننے والوں کیلیے اصل عذاب اِن شاء اللّٰہ روزِ حشر آئے گا۔فی الحال تو اس کُرّہء ارض پر بحیثیت انسان اپنی اجتماعی پرفارمنس کا فطری ردّعمل دیکھنے کا وقت ہے۔ غیر قانونی طریقے سے دریاؤں کے کنارے گھر ھوٹل بنا لینا آبی بہاؤ کا خیال کیے

بغیر اسکے راستے میں کچھ تعمیرات اور بجا درختوں کا کاٹنا بھی شامل ہے اللہ کا نظام ہے جب پہاڑوں پے بارش ھوتی ہے تو قدرتی طور پے اس پانی کے بہاؤ کے راستے بن جاتے ہیں سارے ملکوں نے زیادہ بارشوں کے نقصان سے بچنے کے لیے ڈیم بنائے ھوئے ہیں تو کیا ہمارے اعلی ارباب اختیار کو نہیں چاہیے

کہ وہ ڈیم بنائیں دن بدن پوری دنیا میں پانی کی کمی ھوتی جارہی ہے تو آنے والے وقت میں پانی کی کمی بھی مصبت پرشانی بن کر سامنے آئی گی کیا اس کا حل کسی نے سوچا جب بھی کوء آفت آتی ہے تو وہ ایک سبق دیے جاتی ہے چاہے تو اس سے سبق سیکھ لیں یا پھر اللّٰہ پر ہی الزام دھر دیں کہ یہ اُسی کا عذاب ہے۔
وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں