یہ گلہ ہے نہ شکایت زمانہ !
اس ملک میں سیاست اور اہل سیاست اپنے مفاد میں کب بدل جائیں، کچھ پتا ہی نہیں چلتا ہے ، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جو لوگ ملٹری کورٹس کو آئین و قانون کے خلاف گردانتے تھے ،آج کل فوجی عدالتوں کے گیسوئے تاب داردیکھنے کے متمنی دکھائی دیتے ہیں،اس حوالے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا بیان آیا ہے
کہ دو تین ہفتوں میں فوجی عدالتوں میں عمران خان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوجائے گا، اس بیان پر پی ڈی ایم کے لوگوں کی اندر سے خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح عمران خان منظر سے ہٹ جائیں، تاکہ ان کے لیے سیاسی میدان صاف ہو جائے،لیکن اس ساری غیرجمہوری کار گزاریوں کے باوجود اتحادیوں کی آئندہ انتخابات میں کامیابی مشوک ہی دکھائی دیتی ہے۔
حکمران اتحاد اپنی کامیابی کی یقین دھانی تک حکومت چھوڑنے اور انتخابات میں جانے کیلئے تیار نہیں ہے ، اتحادی حکومت پارلیمان کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری بھی دیے دی ہے ،اس پارلیمان نے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دے کر ایک بار پھر سیاسی قوتوں کی جانب سے دستاویز غلامی پر دستخط کردیے ہیں، حکمران قیادت ایک طرف غیر جمہوری قوتوں کو جمہوری عمل میں عدم مداخلت کادرس دیتی ہے تو دوسری جانب خود ہی مداخلت کا راستہ بھی فراہم کرتی جارہی ہے ، تاہم یہ سب کچھ نومئی واقعات کی آڑ میں اپنے سیاسی مفاد پورے کر نے کی کوشش ہے ، لیکن اس کوشش کو عوام کی حمایت سے قانونی ادارے کبھی کا میاب نہیں ہونے دیں گے۔
حکمران اتحاد کو بڑی دیر بعد نو مئی کا بیانیہ ہاتھ لگاہے ،اس بیانیہ کا سیاسی طور پر نہ صرف بھرپور فائدہ اُٹھایا جارہا ہے ،بلکہ اس کے ذریعے اپنے مخالفین کو بھی راستے سے ہٹایا جارہا ہے ،حکمران قیادت اپنے سر پر ستوں کی ہلہ شیری پر آئین و قانون کی پا مالی کررہے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں ہے ،
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود دو صوبوں کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات ہوسکے نہ ہی مدت گررنے کے بعد غیر آئینی نگراں حکومتیں ختم کی جاسکی ہیں، جبکہ قومی اسمبلی کی مدت بھی اگست میں ختم ہورہی ہے ، کیا اگست میں حکومت چلی جائے گی اورتین مہینے کے لیے نگراں حکومت آجائے گی اور کیا انتخابات بروقت ہوجائیں گے؟ اس کا حتمی جواب ابھی تک کسی کے پاس نہیں ،سب ہی نت نئے خدشات کے ساتھ ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان میں انتخابی عمل، جمہوریت، پارلیمان اور سیاست پر تحقیق کرنے والے ادارے پلڈاٹ کو بھی شک ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، اس حوالے سے پلڈاٹ نے اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد کیا ،اس میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی تیاری پر بحث کی گئی ،اس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اعلان کیا کہ حکومت بروقت انتخابات چاہتی ہے، اس کا تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر کے ساتھ دیگر شر کاء نے بھی خیر مقدم کیا ہے ،لیکن اس کے ساتھ حکومتی وزراء کے پارلیمان کی مدت میں توسیع کے بیانات پر خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے ،اپوزیشن قیادت کا کہنا ہے کہ یہ ملک اب مزید کسی کی خواہش پر نہیں، بلکہ آئین اور جمہور کی مرضی کے مطابق ہی چلے گا۔
اس ملک کو آئین و جمہور کی مرضی کے مطابق ہی چلنا چاہئے ،مگر اس کے برعکس چلانے کی کو شش کی جارہی ہے ، حکمران قیادت نے نجانے کونسا ٹریک پکڑ لیا ہے ،اس پر کوئی منزل ہی دکھائی نہیں دے رہی ہے ،ملکی مسائل کے سلجھائو کاکوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آرہا اور حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں ،اس دور میں چشم فلک ایسے نظارے دیکھ رہی ہے ،جوکہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے ہیں ،اب لاکھ حقائق جھٹلائے جاتے رہیں ،لیکن ایسا بہت کچھ ہو چکا ہے ،جو کہ ہر گز نہیں ہو نا چاہئے تھا ،اس میں سب سے زیادہ حکومت قصوار ہے ،اس کے باوجود اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کیلئے آمادہ ہے نہ ہی اپنی روش بدلی جارہی ہے ،بلکہ وہی پرانی غلطیاں بار بار دھرائی جارہی ہیں ۔
اس وقت ملک انتہائی بد تر سیاسی و معاشی صورتحال کا شکار ہے ،لیکن اہل سیاست اپنی روش ترک کر نے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں ، ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے میں ہی لگے ہیں ،ملک وعوام کا کسی کو احساس ہے نہ ہی اپنی زمہ داریوں کا خیسال کیا جارہا ہے، اس کے باوجودعوا م کاپہلے سے گلہ نہ آنے والوں سے کوئی شکایت ہے ،بلکہ یہ احساس دلانے کی کوشش ہے کہ دوسروں کواپنے پر ہنسنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے
،اگر ہم خود کو ٹھیک کرلیں تو کسی کی کیا مجال ہے کہ ہم پر اُنگلی اُٹھا سکے،ہمارامذاق اُڑا سکے ،ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھا نکنا چاہئے کہ ہم خود ہی کیا کچھ اپنے ساتھ کرتے ہوئے جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں ،اگر ہم اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض آئین و قانون کے مطابق سر انجام دیں گے
تو پھر حالات خود بخودبہتر ہوتے چلے جائیں گے ،ورنہ یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا اور ہم ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹھراتے رہیں گے ،یہ گلہ ہے نہ شکایت زمانہ ، بس ایک در خواست ہے کہ بروقت ہی سنبھل جائیں تو سب کیلئے بہتر ہے،ورنہ داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ، سب کچھ ہی بکھر کر رہ جائے گا۔