اس دور میں جینا مشکل ہے ! 84

سیاسی ناانصافی پرقدرتی احتساب !

سیاسی ناانصافی پرقدرتی احتساب !

اتحادیوں کا ایک ہی ایجنڈا تھا کہ پی ٹی آئی کو راستے سے ہٹاکرہی انتخابا کی جانب جائیں گے ،تحریک انصاف کے بکھر نے پر سب ہی خوش دکھائی دیتے ہیں، الیکشن کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں،اتحادی جماعتوں کے درمیان دبی رقابت بھی سر اُٹھانے لگی ہے ، اپنے حصول مفاد میں ایک دوسرے سے فاصلے بھی بڑھنے لگے ہیں ،ہر ایک کی اپنی خوہشات اور اپنی تر جحات کھل کر سامنے آنے لگی ہیں

،آصف علی زردا ری کی درینہ خواہش ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اگلے وزیر اعظم بنے ،مسلم لیگ( ن)کے اکابرین میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنتا دکھنا چاہتے ہیں ،جبکہ مولانا فضل الراحمن چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کوئی بھی بنے ،لیکن صدر پا کستان مجھے بنایا جائے ،یہ سب کچھ الیکشن کے نتائج پر ہی منحصر ہے ،لیکن اب دیکھنا ہے کہ اگر الیکشن بروقت ہوتے ہیں تو یہ سب کی خواہشات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
حکمران اتحاد کی خواہشات کے عین مطابق سارا ماحول ساگار بنادیا گیا ہے ،اس کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر پھر بھی خدشات پائے جارہے ہیں ،پیپلز پارٹی بروقت انتخابات کرانے کی حامی ہے ،جبکہ مسلم لیگ ( ن)قیادت اور مولانا فضل الراحمن کا خیال ہے کہ اگر چند ماہ اور مل جائیں تو کیا قباحت ہے ،مولانا فضل الرحمن انتخابات سے قبل اپنے مفادات کی یقین دھانی چاہتے ہیں ،جبکہ مسلم لیگ (ن)کا خیال ہے

کہ میاں نواز شریف واپس آجائیں اور ان پر مقدمات کا فیصلہ ہوجائے توہی الیکشن کروا دیے جا ئیں گے ،اتحادی اپنی کار کر دگی پر عوام کی عدالت میں نہیں جانا چاہتے ،بلکہ اپنے حق میں فیصلہ آنے کی یقین دھانی پر ہی عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں ۔اس وقت بظاہر حکمران اتحاد کیلئے جہاںسیاسی میدان صاف کرکے ان کی جیت کی یقین دھانی کروائی جارہی ہے ،وہیں پس پردہ ان کے مخالفین سے بھی اپنی شرائط پر بات چیت ہورہی ہے

، اس دو طرفہ کھیل کے خدشات کے باعث ہی اتحادی کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں ، اتحادیوں کے ساتھ پہلے بھی ہاتھ ہوا ،آئندہ بھی ہو سکتا ہے ،اس لیے بڑے ہی پھونک پھونک کر قدم بڑھائے جارہے ہیں ،اتحادی وقت کم ہونے کے باوجود کوئی رسک لینے کیلئے تیار نہیں ہیں ،تاہم اتحادیوں کے ذاتی مفادات کے پیش نظر غیر سیاسی قوتوں نے ان پر اپنے مفاد کا ایساکمبل ڈالاہے کہ یہ سب بے بس ہو کررہ گئے ہیں

،اس کمبل سے اتحادی اب نجات چاہتے ہیں ،مگر یہ کمبل ان کی جان ہی نہیں چھوڑ رہا ہے ،اس اقتدار کے کمبل میں اب ان کادم گھٹنے لگاہے،لیکن ایسا لگتا ہے کہ جب تک کہیں کوئی دوسری ڈیل نہیں ہوتی ،اس کمبل میںہی اتحادیوںکو جینا اور اس کمبل میں ہی سیاسی طور پر مرنا پڑے گا ۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ نومئی کے بعد حالات یکسر ہی بدل گئے ہیں ،کل کے غیر مقبول بھی آج اپنی مقبولیت کے دعوئے کرنے لگے ہیں

، انہیں ایک ایسا نیا بیانیہ بھی مل گیا ہے کہ جس پرلیکشن میں عوام کے سامنے جاسکتے ہیں،اس بیانیہ کی آڑ میں عوام کو بہلانے اور بے وقوف بنانے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے ،ایک کے بعد ایک پریس کا نفرنس میں خود کو محب الوطن اور اپنے مخالف کو غدار وطن ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ، جبکہ اس ملک میں ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر محب الوطن ہے، لیکن ایک دوسرے کو سیاسی طور پر گرانے اور دیوار سے لگانے میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ واپسی کا کو ئی راستہ ہی دکھائی نہیں دیے رہا ہے

، یہ سارے ہی اقتدار کی دوڑ میںبند گلی میں پہنچ چکے ہیں اور اس سے نکلنا بھی نہیں چاہتے ہیں، یہ سیاسی قیادت کیلئے بہتر ہے نہ ہی جمہوریت کے مفاد میں ہے ، لیکن اہل سیاست جانتے بوجھتے سب کچھ دائو پر لگانے پر تلے نظر آتے ہیں۔اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا نہ ہی اپنے حال سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ،بار بار وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں، اپنے اقتدار کیلئے دوسروں کے اشاروں پر جائز وناجائزکیا جارہا ہے، آج کے ان حکمرانوں کوکون سمجھائے، جوکہ نادیدہ ہاتھوں کے اشارے پر چلتے ہوئے

سمجھ رہے ہیںکہ ان کی دی ہوئی طاقت کے زور پرہی سب کچھ درست کر لیا جائے گا ،سب کچھ اپنے ہاتھ میں کرلیا جائے گا ،جبکہ اس دور میںسارے الجھے مسائل تجربے اور صلاحیتوں کے متقاضی ہوتے ہیں، عوامی فیصلے کے مرہون منت ہوتے ہیں،گرحکمران اپنی طاقت کے دبائوسے جمہوریت اور قانون کے ساتھ ایسے ہی کھلواڑ کریںگے ،اپنے مفاد میں قانوسازیاں کریں گے اور عوام کو زور زبر دستی اپنے تابع کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کے نتا ئج کبھی اچھے نہیں نکلیں گے، لیکن حکمران مکافات عمل سے عاری بھول جاتے ہیں کہ اس کا خود بھی شکار ہوسکتے ہیں، وہ دنیا میں آئین و قانون سے ماورا ہو سکتے ہیں ،

لیکن قدرت کی گرفت سے کیسے بچ پائیں گے ، یہ سیاسی نا انصافیوں پر قدرت کے احتساب میں جکڑے جاسکتے ہیں، قدرت کا انصاف کبھی عہد ے اور مرتبے نہیں دیکھتا ، اس کی عدالت میں سب برابرہوتے ہیں ، اس کی رسی دراز ضرور ہوتی ہے ،مگر مظلوم کی دہائی پرجب قبل از وقت کھنچتی ہے تو پھر سارا غرور خاک میں مل جاتا ہے ،اقتدار چھن جاتا ہے اورسارا عروج زوال میں بدل جاتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں