سیاسی بساط پر مہروں کا کھیل !
سیاست دھند میں کھیلا جانے والا ایک ایسا کھیل ہے کہ جس میں تاحدِ نگاہ کچھ نظر نہیں آتا، ہر منظر دھندلا ہوتا ہے،اس کے باوجود سیاست کے کھیل میں سیاستدان شطرنج کے ان مہروں کی طرح کھیلتے ہیں کہ جنہیں آخری وقت میں جاکر پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف فریبِ نگاہ ہے اوروہ جس کھیل میں اپنی جان اور اپنی ساکھ کی بازی لگا رہے ہوتے ہیں، اس کی بساط پر ایک چال بھی ان کی مرضی کی نہیں ہوتی, بلکہ اصل بادشاہ تو کوئی اور ہی چالیں چل رہا ہوتا ہے اوران کی اوقات ایک مہرے سے زیادہ نہیںہوتی ہے۔
اہل سیاست بڑی اچھی طرح سیاست کی بچھی بساط سمجھتے ہیں ،اس کے باوجود بادشاہ بننے کے بجائے مہرہ بننے کو تر جیح دیتے ہیں ،پی ڈی ایم بھی جانتے بوجھتے دوسروں کی بچھائی بساط کا حصہ بنی تھی ،پی ڈی ایم نے جب اقتدار سنبھالا تو بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف حکومت چند ہفتوں سے زیادہ اقتدار میں رہ پائے گی ،لیکن اتحادی اختلاف رائے کے باوجود ڈیڑھ سال سے نہ صرف حکومت چلا رہے ہیں
،بلکہ آئندہ اقتدار ملنے کی یقین دھانی تک اقتدار چھوڑنے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں ، تاہم گزشتہ دنوں چیئر مین پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف سے جو شکایت کی اور شکایت کاازالہ نہ ہونے کی صورت میں دھمکی دی ہے ،اس نے سب ہی کو چو نکا کر رکھ دیا ہے ۔
یہ امر واضح ہے کہ پی ڈی ایم ایک غیر فطری اتحاد ہے اور اگر اختلاف رائے کے باوجود بھی چلا جا رہا ہے تو اس کی وجہ مشترکہ مفادات ہیں ، تاہم جب سے انتخابات کے انعقاد کی بات چلی ہے تواتحادیوں کے اختلافات سب کے سامنے آنے لگے ہیں ،ایک دوسرے کے خلاف بیانات ،شکایات اور دھمکیاں دی جانے لگی ہیں
، وزیر اعظم شہباز شریف ایک طرف اپنے اقتدار میں اتحاد برقرار رکھنے کیلئے شکایات کا آزالہ کرنے میں لگے ہیں تو دوسری جانب اپنے وزراء کو کھلی چھوٹ دیے رکھی ہے کہ اپنے سیاسی مفاد میں بیانات دیتے رہیں ،یہ حکو متی وزراء کے بیانات کا ہی نتیجہ ہے کہ اتحادیوں کے درمیان اختلافی دراڑیں بڑھنے لگی ہیں ۔
بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے احتجاج اور دھمکی کے پیچھے بھی مسلم لیگ( ن)کے رہنمائو کی طرف سے دیے گئے بیانات ہیں، ایک طرف مسلم لیگ رہنماء آزاد کشمیر اور کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں تو دوسری جانب اعلانات کیے جارہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں کسی سے اتحاد کریں گے نہ ہی سیٹوں پر مشاورت ہو گی ،جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز کا نئے پارٹی عہدوں پر منتخب ہونے کے بعد کہنا ہے کہ میاں نواز شریف انتخابات سے قبل واپس آکر نہ صرف انتخابی مہم کی قیادت کریں گے ،بلکہ چوتھی بار وزیر اعظم بھی بنیں گے ۔
اس حوالے سے حکومت آر ٹیکل 62تحت تاحیات نااہلیت کو پانچ برس تک محدود کرنے کیلئے ایک ترمیمی بل پرلیمنٹ میں لاچکی ہے ،اس بل کو حکومت کی جانب سے نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے ،لیکن سابق صدر آصف زرداری کہہ چکے ہیں کہ ان کے سامنے اب سب سے بڑا مشن بلاول کو وزیر اعطم دیکھنا ہے ،وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ بھی اعلان کر چکے ہیں
کہ بلاول بھٹو زرداری اگلے وزیر اعظم ہوں گے ،لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ جب مسلم لیگ( ن) پنجاب میں پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی سیٹوں کی ایک بڑی تعداد دینے پر رضا مند ہو جائے ،اس باری کے کھیل پر رضامند کر نے کیلئے پیپلز پارٹی ایک طرف مسلم لیگ( ن) پر دبائو بڑھارہی ہے تو دوسری طرف طاقتور حلقوں کے منظور نظر ہونے پر یقین رکھتی ہے کہ اسے ہی اقتدار ملے گا۔
اس پاور گیم کی بساط پر موجود ہر کھلاڑی کو ایسا ہی لگ رہاہے کہ وہ سب سے اہم ہے ،لیکن یہ مہرے جان ہی نہیں پارہے ہیں
کہ اس کھیل سے ان کا کردار کب ختم ہوجائے، کچھ کپتا نہیں ہے ،اس اقتدار کے کھیل میںجس کھلاڑی کو لگتا ہے کہ وہ سب سے اہم ہے، کھیل کی آخری بازی میں پتہ چلتا ہے کہ وہ کھیل کا حصہ ہی نہیں رہا اور اس کی جگہ کسی اور کھلاڑی نے لے لی ہے، یہ پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ ہوتے سب نے دیکھا ہے ، وہ یقین کی ان بلندیوں پر تھے کہ ان کا متبادل کوئی نہیں، تب ہی بازی ایسی پلٹی کہ دیکھنے والے بھی دنگ رہ گئے کہ انہیںکیسے اقتدار کے کھیل سے ہی مائنس کر دیا گیا ہے ۔
ایک بار پھر وہی پرانا کھیل کھیلا جارہا ہے ، ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر خود کو اہم سمجھ رہا ہے اور یقین دلا رہا ہے کہ وہ غلام ابن غلام رہے گا
کہ جس پر اپنی مرضی کی بساط بچھا سکیں،انہیں اپنی چالوں پر بھروسہ ہے اور مان ہے کہ انہیں نئے بادشاہ گروںکا ساتھ حاصل ہو سکتا ہے،یہ جانتے ہوئے بھی کہ ٹیڑھی چال چل کر منزل پر نہیں پہنچا جا سکتا، وہ امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔