سبز انقلاب کا خواب !
پاکستان بیرونی دنیا میں ایک زرعی ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے، ایک وقت تھا کہ یہاں سے زرعی اجناس دوسرے ملکوں کو برآمد کی جاتی تھیں،ایک یہ وقت ہے کہ نہ صرف وہی اشیاء زیادہ قیمتی زر مبادلہ خرچ کرکے درآمد کرنے پر مجبور ہیں ،بلکہ غذائی قلت کا بھی شکار ہورہے ہیں، اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے آرمی چیف نے پاکستان کو سر سبز بنانے کیلئے فوج کے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے ،
وزیر اعظم شہباز شریف بھی پچھے نہیں رہے ہیں ،انہوں نے پیروی میںدوسرا بڑا سبز انقلاب لانے کا اعلان کر دیا ہے ،یہ سبز انقلاب ملک کی اہم ضرورت ہے ، یہ سر سبز انقلاب ملک میں آنا چاہئے لیکن اس سر سبز انقلاب کے خواب کی تعبیر پانے کیلئے آزمائی قیادت پر انحصار خود کو دھوکہ دینے کے ہی مترادف ہے ۔
یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستان کے دوسرے بڑے زرعی انقلاب یا سبز انقلاب کا دعویٰ ایسی پارٹی کررہی ہے کہ جس کی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر کم وبیش چالیس برس سے حکمرانی ہے اوراس کی حلیف پارٹی سندھ اتنے ہی عرصے سے حکمران ہے،لیکن یہ دنوں ہی پارٹیاںاتنے عر صہ سے اقتدار میں رہتے ہوئے بھی کسانوں ، صنعت کاروںاور عام آدمی کو کسی قسم کی راحت فراہم نہیں کرسکیں ہیں
، انہوں نے عوام کے بجائے نہ صرف خود کے ساتھ اپنے ہم نوائوںکو مضبوط سے مضبوط تر کیا ،بلکہ عوام کے ٹیکس سے حاصل کردہ مراعات سے عیش بھی کررہے ہیں ،اس کے باوجود ہوس اقتدار ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ،یہ اپنے حصول مفاد میں اکھٹے اور حصول اقتدار میں دست گریباں ہونے میں دیر نہیں لگاتے ہیں ۔
یہ سب ہی عوام کی نمائندگی کے دعوئیدار ہیں ، لیکن ایوان اقتدار میں عوام کی حقیقی نمائندگی نظر ہی نہیں آتی ہے ،ایوان پار لیمان کی اکثریت جاگیردار، وڈیروں ، بڑے صنعت کاروںکے علاوہ ان ہی کے چیلوں سے بھری پڑی ہے، یہ عوام کے نام نہاد نمائندگی کر نے والے ایوان میں عوام کی آواز بننے کے بجائے اپنے مفادات اور اپنی مراعات میں اضافے کے بل منظور کرنے میں ہی لگے رہتے ہیں ،
یہ اپنے ہر دور اقتدار میں ایک طرف عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کرتے جارہے ہیںتو دوسری جانب ملک پر قرضوں کا بھاری بوجھ بڑھا تے جارہے ہیں،اس طرز عمل کے ساتھ وزیر اعظم شر یف کہتے ہیں کہ کشکول توڑیں گے ، ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر یں گے ،میاں نواز شریف نے بھی ایشین ٹائیگر بنانے کا سبز باغ دکھائے تھے، لیکن ایشن ٹائیگر تو کجا ،اس ملک کو عالمی ساہو کاروں کے در کا ہی غلام بنادیا گیا ہے۔
ہر دور اقتدار میں دعوئے کیے جاتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے، لیکن ہر دور اقتدار میں حکمران آئی ایم ایف کے در پر ہی کھڑے ملے ہیں، اس بار بھی ایک طرف آئی ایم ایف سے قر ض ملنے پر خوشیاں بنائی جارہی ہیں تو دوسری جانب ایک بار پھر کشکول توڑنے کے چھوٹے دعوئے کیے جارہے ہیں
،ملک میں سبز انقلاب لانے کے خواب د کھائے جارہے ہیں،وزیراعظم جو سبز انقلاب کے حوالے سے سبز باغ دکھارہے ہیں، یہ پاکستانی قوم بہت عرصے سے دیکھ رہی ہے اور یہ سارے سبز باغ اور سبز خواب دکھانے والے عوام کے پرانے آزمائے ہوئے ہیں ،اس آزمائی قیادت نے ہی ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے ،یہ ہی ملک و عوام کی بد حالی کے ذمہ دار ہیں ، لیکن یہ عوام کی بد نصیبی ہے کہ مقتدر حلقوںسب کچھ جانتے بوجھتے آزمائی نااہل قیادت کو ہی ملک وعوام پر مسلط کر نا چاہتے ہیں ۔
اس زبر دستی کے فیصلے کے خلاف عوام سراپہ احتجاج ہے ،لیکن عوام مخالف وقوتوں نے عوام کے خلاف ہی اتحاد کرلیا ہے ، اس اتحاد کے سامنے مخلص کائوشیںبھی کامیاب نہیں ہو پارہی ہے، کیو نکہ ملک کے سارے وسائل عوام ہی کے خلاف استعمال ہورہے ہیں،عوام کی آواز کو زور زبر دستی دبایا جارہا ہے ،بلکہ دیوار سے بھی لگایا جارہا ہے ، لیکن عوام کی آواز زیادہ دیر تک دبائی جاسکے گی نہ ہی عوام کی مرضی کے خلاف من پسند فیصلے مسلط کیے جاسکیں گے ،عوام مخالف فیصلوں سے قا ئم کردہ حکومت کی کو ئی ساکھ ہو گی نہ ہی اس کے کسی انقلابی اقدام سے ملک میں کوئی تبدیلی لائی جاسکے گی
،ماس کے باوجود مقتدر حلقے بضد ہیں تو ایک بار پھر اپنا شوق پورا کر لیں ، ایک بار پھر آزمائے کو آزما لیں ،لیکن عوام جانتے ہیں کہ چار مرتبہ حکمرانی کرنے کے باوجودملک کو ئی سیاسی ،معاشی ، زرعی، صنعتی، اخلاقی انقلاب نہیں لایا جاسکاتو اب کیسے آئے گا؟مقتدر حلقے جتنا مرضی آزمائی قیادت بارے خوش فہمی کا شکار رہیں ،لیکن عوام اب کسی انقلاب کے بہکائوئے اور بہلائوئے میں آنے والے نہیں ہیں!