دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنانے کا عزم !
بلکہ دہشت گروں کو بھی جھنم وسال کیا ہے، لیکن قلعہ سیف اللہ میں ایف سی اہلکاروں، تربت میں لیویز تھانے اور کراچی میں سی ٹی ڈی کے موبائل پر ریموٹ کنٹرول حملے کے واقعات اس امر کی نشاندہی کررہے ہیں کہ شرپسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہی ہورہاہے، تاہم سکیورٹی فورسز بھی ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کیلئے انتہائی پُر عزم دکھائی دیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ افواج پاکستان نے اپنی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ دشمن کی ہر چال ناکام بنائی اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کے لئے ہمہ وقت کمربستہ رہتے ہیں،لیکن ملک دشمن قو تیںبھی پا کستان کے قیام امن کو سبو تاژ کر نے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیے رہی ہیں ،سر حد پار سے دہشت گردی کا دوبارہ سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے، افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعدسمجھا جارہا تھا
کہ بھارت کی نجی ملیشیا کے ٹھکانوں کا اب صفایا ہو چکا ہے،کیونکہ افغان طالبا ن نے بھی پاکستانی سرحد کے قریب سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیئے ہیں،جبکہ بھارتی ایجنسی (را) کی سر پرستی میں چلنے والے تمام کیمپ بھی بند ہو چکے ہیں،اس کے باوجود دہشت گردوں کا بلوچستان کے راستے کاروائیاں کرنا ،ثابت کررہا ہے کہ کہیں نہ کہیں اب بھی کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرورپائی جاتی ہے ۔
اس وقت بھارت کی تمام تر توجہ بلوچستان میں عد م استحکام پیدا کرنے پر ہے،کیو نکہ بھارت کو بلو چستان سے سہولت کاری مل رہی ہے ،اس لیے پاکستان کی ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی بلوچستان پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے ،بلو چستان میں کچھ علیحدگی پسند گرپوں کے تانے بانے دہشت گردوں کے ساتھ ملتے ہیں،حالیہ کاروائی بھی بظاہر ایک مخصوص گروہ کی ہی کارروائیاں محسوس ہوتی ہے،
لیکن حقیقت میں اس وقت بلوچستا ن کے سبھی دہشت گرد گروپ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ،سکیورٹی اداروں کو ان گروپوں کے درمیان پھوٹ ڈالنی چاہیے، تاکہ یہ ماضی کی طرح ایک دوسرے کے خلاف ہی صف آرار ہیںاور اس کے ساتھ ہر ایک کے خلاف سخت کاروائی بھی جاری رہنی چاہئے،کیو نکہ گزشتہ نرم پالیسی کے نتائج کچھ اچھے نہیں نکلے ہیں ،اس لیے دہشت گر دوں کے ساتھ ان کے سہولت کاروں کے گرد بھی سخت گھیر تنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی
،بد امنی اور امن و امان کے اثرات پورے ملک پر ہی مرتب ہوتے ہیں،پاکستان کی قومی سلامتی و ترقی کا عمل براہ راست بلوچستان کی ترقی اور امن کے ساتھ جڑا ہے،پاکستان کی مجموعی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے ایک بڑے سیاسی اور انتظامی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جو لوگ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں وہ صوبہ بلوچستان یا خیبر پختونخواہ کے بعض علاقوں کو بنیاد بنا کرملک میں بدامنی پیدا کرنے کے عزائم بھی رکھتے ہیں ،
اس لیے بلوچستان کے معاملات پر ہمیں گہری نظر رکھنا ہو گی اور وہاں پر موجود غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنے کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بناہو گا،اگر سیکورٹی فورسز دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنانے کے عزم کے ساتھ نبرد آزماہیں تو حکومت کو بھی سیاسی طور پر آگے بڑھتے ہوئے وہاں کے محروم طبقات کی محرومیوں کا ازالہ کر نا ہو گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ملک بھر کے محروم طبقات ہی ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بن رہے ہیں، سیاسی ،سماجی ، معاشی و انصاف سے جڑی محرومیوں کا خاتمہ کر کے ہی ایسے عوامل کی حوصلہ شکنی کی جا سکتی ہے
،اتحادی حکومت نے تو اپنا سار بوجھ ہی افواج پا کستان پر ڈال رکھاہے ، سیاست سے لے کر معیشت اور گرین انقلاب لانے تک کی ساری ذمہ داری فوج کی ہے تو پھر اتحادی حکومت کیا کررہی ہے، حکومت کاکام صرف اقتدار اور مرعات کے مزے لینا ہی نہیں ،ملک و عوام کے مسائل کا تدارک کر نا بھی ہے ، حکومت اور اسٹبلشمنٹ جہاں کئی امور میں ایک پیچ پر ہیں، وہیں پر انھیں بلوچستان کے لیے بھی ایک پیچ پر ہونا ہو گا،
ملک کی سول، سیاسی اور عسکری قیادتوں کو باہم مل کرآگے بڑھنا ہوگا،بلو چستان سے دہشت گردی اور بدامنی کا تدارک کرنے کیلئے بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کا آزالہ کرنا ہو گا،بلوچستان کی محرومیوں کا جب تک مل کر آزالہ نہیں کیا جائے گا ،اس وقت تک سہولت کاری رُکے گی نہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا نہ ہی ملک میں سیاسی و اقتصادی استحکام لایاجاسکے گا۔