توہین قرآن پر عالم اسلام کی بے بسی !
سویڈن میںقرآن پاک کی ایک بار پھر بے حرمتی کی گئی ہے ،ایک بار پھر اُمت مسلمہ کی غیرت کوللکارا گیا ہے،سویڈن میںقرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ اس لحاظ سے باعث تعجب ہے کہ دو ہفتے قبل اسی نوع کے واقعہ پر سویڈن حکومت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ ایسے واقعات سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر رہے ہیں،سویڈن حکومت اپنے وضاحتی بیان میں خود کو بے حرمتی کے واقعہ سے لا تعلق بتاتی رہی ہے
،اس نوع کاہی واقعہ دوبارہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ سویڈن نے جس درجہ افسوس کا اظہار کیا، اس طرح ایسے واقعات کو روکنے کے لئے اقدامات نہیں کئے ہیں،اس لیے شر پسند حلقے اپنے خلاف کارروائی نہ ہونے پر شہہ پا رہے ہیںاور عالم اسلام بے بسی کی تصویر بنے سب کچھ ہوتا دیکھے جا رہے ہیں ۔
مغربی دنیا کے انتہا پسند عناصر مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی ناپاک سازشیں اور گھناؤنی حرکتیں کرتے ہی رہتے ہیں،کبھی توہین آمیز خاکے بنائے جاتے ہیں، کبھی قرآنی نسخے جلائے جاتے ہیں اور کبھی گستاخانہ فلمیں اورکارٹون بنائے جاتے ہیں ،یہ سب کچھ کرکے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے،اس پر اہل مغرب کا رویہ ہمیشہ سے ہی انتہائی دوغلانہ رہا ہے ،ایک طرف ایسے واقعات کی روک تھام کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے تو دوسری جانب آزادی اظہار کا نام دے کرتوہین کرنے والوں کو تحفظ بھی دیا جارہاہے، اس دوغلی روش کے باعث ہی یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اور اس کے آگے کوئی بند باندھنے والا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
اہل مغرب میں جب بھی ایسی کوئی گستاخانہ حرکت ہوتی ہے تو پورے عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے، عوامی سطح پراسلامی ممالک میں ہی نہیں ،اہل مغرب میں بھی شدید احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں اور حاکموں سے مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ ایسے نازیبا اقدامات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر سخت ترین اور ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا جائے، اسلامی ممالک کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی آواز بلند کی جاتی ہے،
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی آواز بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز کے ہی مترادف ہے، کیو نکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم او آئی سی صرف اجلاسوں پر اجلاس منعقد کرنے اور قراردادیں پاس کرنے سے آگے بڑھ کر کوئی ٹھوس جامع عملی قدم اٹھانے میں بری طرح ناکام چلی آ رہی ہے،اس لیے ہی اہل مغرب توہین مذہب سے باز نہیں آرہے ہیں۔دراصل مسلم ممالک کے حکمرانوں کے مفادات اہل مغرب سے جڑے ہیں
، یہ مفادات کی ہی غرض ہے کہ مسلم ممالک بے حرمتی کرنے والے ملک کے خلاف سخت ردعمل دینے سے گریزاں ہیں ،پاکستان میں فرانس کے واقعات پر عوام کا رد عمل اور حکومت کی بے بسی بھی اسی تناظر میں دیکھی جاسکتی ہے ، وزیر اعظم شہباز شر یف ایک طرف قران پاک کی بے حرمتی کی شدید مذمت کرتے ہیں ،اس کے خلاف عالمی پلیٹ فارم پر آواز اُٹھا نے کی باتیں کرتے ہیں تودوسری جانب سویڈن وزیر اعظم کو گلے لگارہے ہوتے ہیں
کہ کہیں تعلقات ہی خراب نہ ہو نے جائیں ،یہ سارے ہی مسلم حکمرانوں کے قول و فعل کا تزاد ہے کہ جس کے باعث اجتماعی آواز بھی بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے ،پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کے حکمران طبقات جب تک اہل مغرب سے جڑے اپنے مفادات نہیں چھوڑیںگے،اس وقت تک توہین آمز واقعات کا سلسلہ روکنے والا ہے نہ ہی اسلام مخالف سازشوں کا سد باب ہو پائے گا۔یہ بات مسلم امہ کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے
کہ اگر ان کی صفوں میں مثالی نوعیت کا اتحاد نہیں ہوگا اور وہ اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر اپنی سیاسی، اخلاقی اور مادی قوت کو یکجا کر کے بروئے کار نہیں لائیں گے تو مسلم امہ کو درپیش ایک بھی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے ، کشمیر و فلسطین کے مسلمان اسرائیل و بھارتی بربریت کا ایسے ہی نشانہ بنتے رہیں گے، مغرب میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلامی شعار کا مذاق ایسے ہی اڑایا جاتا رہے گا، قرآن کی بے حرمتی اور گستاخانہ طرز عمل کی بازگشت ایسے ہی بار بار سنائی دیتی رہے گی اور مسلم اُمہ اپنے مفاد پرست حکمران طبقے کے باعث ایسے ہی بے بسی کی تصویر بنے سب کچھ ہوتا دیکھتے رہیں گے ۔
یہ اُمت مسلمہ کا وقت امتحان ہے کہ اپنے دین اسلام اور اپنے قران کی بے حرمتی کے سد باب کیلئے کہاں تک اپنے مفادات کی قر بانی دیتے ہیں اور کہاں تک عملی اقدامات کرتے ہیں ،مسلم اُمہ سراپہ احتجاج ہے ،لیکن اس اُمت مسلمہ کے حکمرانو پر سولیہ نشان ہے ؟اگر سارے اسلامی ممالک مل کر ایک بار اہل مغرب سے اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیںتو اسلام مخالف قوتوں کی بولتی بند ہو سکتی ہے ،
لیکن یہ کچھ بھی ایسا نہیں کریں گے کہ جس سے ان کے مفادت پر ضرب پڑے ،یہ ہوس اقتدار اور ہوس زر میں اپنے مذہب کی توہین بر داشت کرتے رہیں گے ، یہ ان کے ہاتھوں ذلیل و خوار بھی ہوتے رہیں گے ،لیکن اپنے تعلقات کبھی خراب نہیں کریں گے ،یہ سجھتے ہیں کہ ایسے ان کی دنیا سنور جائے گی ،لیکن یہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں ہی خراب کررہے ہیں ۔یہ اُمت مسلمہ کے حکمران غلط فہمی کا شکار ہیں
نہ ہی بے بسی کی تصویر بننے والے اپنے حصول مفاد میں کبھی کامیاب ہو پائیں گے، اُ مت مسلمہ کے حکمرانوں کا فرض بنتا ہے کہ توہین قرآن پر بے بسی کی تصویر بننے کے بجائے اہل مغرب کے اوچھے ہتھکنڈوں کامو ثر جواب دیے کر اپنی دنیاو آخرت سنوار لیں ،بصورت دیگر انہیں دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی سے کوئی بچا نہیں پائے گا!