قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں! 49

سیاست پر چھائے بے یقینی کے بادل !

سیاست پر چھائے بے یقینی کے بادل !

اس ملک کو بنے سالہاسال بیت گئے، کتنی ہی رتیں بدل گئیں ،لیکن حکمرانوں کے بیانات اور دعوئے نہیں بدلے ہیں ، وہی پرانے بیانات اور دعوئے دہرائے جارہے ہیں ،وہی پرانے خواب بیچئے جارہے ہیں ،یہ خواب بیچنے والے باریاں لگا کر اپنا شوق حکمرانی تو پورا کررہے ہیں ،لیکن عوام کو دکھائے خوابوں کی تعبیر دور تک کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،اس کے باوجود وزیر اعظم کا کہنا ہے

کہ اگر ہمیں عوام نے موقع دیا تو ملک وعوام کی تقدیر بدل دیں گے ،یہ تقدیر بدلنے والے حکمرانوں کے کمالات کا ہی اعجاز ہے کہ عام آدمی کو ایک وقت کی روٹی پوری کرنے کے لالے پڑے ہیں اور وہ بھوکے خود کشیاں کر نے پر مجبور ہورہا ہے۔
عوام آئے روز بڑھتی مہنگائی کے ہاتھو پر یشان حال ہے ،لیکن حکمرانوں کو عوام کے مسائل کے تدار کے بجائے نگراں سیٹ اپ کی پر یشانی کھائے جارہی ہے ،اس حکومت کی خواہش ہے کہ نگراں حکومت نہ صرف اُن کی منشا کے مطابق بنے ،بلکہ با اختیار بھی ہو نی چاہئے ، اس کیلئے جہاں قانون سازی کی جارہی ہے

،وہیں اپنے من پسند نگراں سیٹ اپ بارے اظہار خیال بھی کیا جارہا ہے ، نگران وزیر اعظم کیلئے اسحاق ڈار کا نام زور و شور سے زیر گردش ہے ، اس سے قطع نظر کہ یہ زیر گردش نام کب حقیقت کا روپ دھارتا ہے ،یہ سوال ہر ذہن میں اُٹھ رہا ہے کہ ایک ایسے شخص کے نام پر غور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے، جوکہ نہ صرف ایک سیاسی جماعت کا باقاعدہ عہدیدار ہے ،بلکہ اس حکومت میں وزیر خزانہ کے منصب پر بھی فائز ہے ۔
اس ملک میں کبھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ، اگر اس ملک میں کل کے کرپٹ آج کے حکمران اور کل کے ایماندار آج کے بے ایمان ہو سکتے ہیں تو اس حکومت کے وزیر خزانہ نگران وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں ، اِس وقت جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے،اس ملک کے آئین و قانون کو موم کی ناک بنادیا گیا ہے کہ جسے اپنی منشاء کے مطابق با آثانی جدھر چاہئے موڑا جارہا ہے

،معاشی بحالی و استحکام کے نام پر ایک ایسا پتلی تماشا لگا ہے کہ جس میں اتحادی ہوس اقتدار کے لالچ میں اَن دیکھے ہاتھ کے اشاروں پر ناچے چلے جا رہے ہیں ،یہ بھول رہے ہیں کہ ان ڈوریاںٹوٹ سکتی ہیں،ان دیکھے ہاتھوں سے چھوٹ بھی سکتی ہیں،لیکن یہ ان سب باتوں سے بے پرواہ ناچنے میں ایسے مگن ہیں کہ انہیں کچھ سجھائی ہی نہیں دیے رہا ہے۔
اتحادی خوش ہیں کہ طاقتور حلقوں کے ساتھ رہتے ہوئے آئندہ اقتدار بھی اُن کا ہی ہے ، اس لیے اپنے مخالفین کو نہ صرف کھلے عام دیوار سے لگایا جارہا ہے ،بلکہ سیاسی میدان سے ہی باہر کیاجارہا ہے ،اس کیلئے سار ے نا جائز ہتھ کنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ، اس ملک میںمیں پہلی مرتبہ ایسا سیاسی ڈراما رچایا گیا ہے کہ ایک شخص جیل سے رہا ہوتا ہے، پریس کلب پہنچتا ہے اور وہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے

اپنی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے بار بار پا بندے سلاسل کیا جارہا ہے ،یہ سب کچھ سب کے سامنے ہورہا ہے اور سب ہی بے بس دکھائی دیے رہے ہیں ، یہ کون کروارہا ہے اور کون کررہا ہے ،یہ سب جانتے ہیں ،لیکن کوئی روکنے والا ہے نہ ہی ٹوکنے والا ہے ، کیو نکہ اُن کا نام پر زبان اور ہاتھ جلتے ہیں۔
پوری قوم ہی کھلی آنکھوں سے سارا ڈراما دیکھ رہی ہے ،وہ بھی جانتی ہے کہ یہ کون لوگ ساراڈرامے کررہے ہیں، لیکن ماسوائے سوشل میڈیا پر احتجاج کے کچھ بھی نہیں کر پارہے ہیں، یہ اس وقت احتجاج کا سب سے مہذب اور محفوظ طریقہ ہی دکھائی دیتا ہے، اس سے قبل عوامی احتجاج پر حکومت نے عوام کے ساتھ جوکچھ روا رکھاگیا ،ساری دنیا نے دکھا ہے اور اب سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے لے کر عمر سرفراز چیمہ تک اور ڈاکٹر یاسمین راشد سے لے کر ختیجہ شاہ سمیت دیگر خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہاہے، وہ کہیں زیادہ افسوسناک اور حیرت انگیز ہے،اتحادی قیادت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ آج جو کچھ بورہے ہیں ،انہیں کل سود سمیت کا ٹنا بھی پڑے گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ حکمران اتحاد جتنا اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کار وائیاں کررہے ہیں،اُتنا ہی اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقتدرہ جن تیرہ جماعتوں پر مشتمل سیاسی ٹولے کی حمایت کررہی ہے، اس کی فردِ عمل میں کرپشن، لوٹ مار اور نااہلی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، یہ اپنے دور اقتدار میں مقدمات سے بچ تو سکتے ہیں ،لیکن اپنی ساکھ بحال کر سکتے ہیں نہ ہی عوام کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں،یہ ٹولہ عوام کو مایوسیوں کے علاوہ کچھ دیے

پایا نہ ہی عوام ان سے کوئی اُمید لگائے بیٹھے ہیں ، اس لیے فیصلہ سازوں کو فیصلہ سازی میں عوام کی خواہشات کا بھی خیال رکھنا چاہئے، اگر عوام کو ایک بار پھر فیصلہ سازی میں نظر انداز کیا گیا اور اس اتحادی حکومت کے ہی تسلسل کو نگراں سیٹ اپ میں بھی جاری رکھا گیا تو اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلیں گے ، اس کے خلاف جہاں عوام کا رد عمل آئے گا وہیںملک کے سیاسی و اقتصادی مستقبل پر بے یقینی کے بادل ایسے ہی چھائے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں