اتنی بے اعتباری کیوں ہے! 52

مایوسی کے ندھیرے میں اُمید کا چراغ !

مایوسی کے ندھیرے میں اُمید کا چراغ !

اتحادی حکومت جارہی ہے اور نگران حکومت آرہی ہے ،اتحادی حکومت ڈیڑھ سال میں جوکچھ نہ کر پائی ،نگران حکومت سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ سب کچھ ضرور کر پائے گی ،اس لیے ہی نگران حکومت کو نہ صرف با اختیار بنایا گیاہے ،بلکہ اتحادی حکومت سے زیادہ وقت بھی دیا جارہا ہے،لیکن اس اقتدار کے کھیل میں افلاس زدہ عوام کا کچومر نکل رہا ہے،عوام جیئے یا مرے ،اس فکر سے حکمران آزاد ہو چکے ہیں،اب مفلس عوام جانیں اور ان کا کام،حکمران اشرافیہ تو اقتدار کے مزے لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔
عوام کبھی حکمرانوں کی تر جیحات میں رہے ہی نہیںہیں ،اس کے باوجود حکمران دعوئیدار ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں ، عوام کیسے ان کے ساتھ ہو سکتے ہیں ،جبکہ یہ عوام کے ساتھ کبھی نہیں رہے ہیں، ہر دور اقتدار میں حکمرانوں نے پہلے اقتدار میں آنے کیلئے عوام کاستعما کیا،پھر اقتدار بچانے کیلئے عوام کو ہی قربانی کابکرا بنایاجاتا رہا ہے ،

عوام کی نمائندگی کے دعوئیداروں نے کبھی عوام کا بوجھ باٹنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے ،عوام کل بھی حکمران اشرافیہ کی عیاشیوں کاساراوجھ اُٹھارہے تھے ،عوام آج بھی سارابوجھ اُٹھانے پر مجبور ہیں، اس پر احتجاج کر سکتے ہیں نہ ہی آواز اُٹھا سکتے ہیں،اگر کوئی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے نشان عبرت بنادیا جاتا ہے ۔اس ملک میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ ایک طرف جمہوریت کے علمبر دار ہی جمہور کی آواز دبارہے ہیں تو دوسری جانب اپنے مخالف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہے ہیں

،اس کے نتائج پہلے اچھے نکلے نہ ہی آئندہ اچھے نکلیں گے ،لیکن اہل سیاست نے اپنے ماضی سے نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے ،یہ کل اپنے مخالف کی سزاونااہلی پرمٹھائیاں بانٹتے رہے، یہ آج بھی خوشیاں مناتے ہوئے بھنگڑے ڈال رہے ہیں ،لیکن عوام کی عدالت میں جانے سے بھاگ رہے ہیں ، حالانکہ ان کی خواہش کے مطابق میدان صاف کر دیا گیا ہے

،اس کے باوجو پی ٹی آئی قیادت کا اتنا خوف ہے کہ پا بند سلاسل کر کے بھی انتخابات ملتوی کر نے کے بہانے ڈھونڈے جارہے ہیں ، نگران سیٹ اپ میں شامل ہو نے کے سہارے ڈھونڈے جارہے ہیں ۔
پی ڈی ایم قیادت حصول اقتدار میں اپنا سب کچھ ہی دائو پر لگا ر ہے ہیں ، لیکن سیاست کے موسم میں تبدیلی آتے زیادہ دیر نہیں لگتی ہے ،سیاست میں کبھی کچھ بھی تبدیل ہو سکتا ہے ، حکمران اتحاد کے جانے اور نگران حکومت کے آنے کے بعد حالات میں تبدیلی کے آثار دکھائی دیے رہے ہیں ،اتحادی قیادت کے پاس اب بھی وقت ہے

کہ انتقامی سیاست سے گریز کرتے ہوئے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیں ، ملکی مفاد بھی اسی میں ہے کہ سیاست دانوں کو سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا چاہیے نہ کہ مختلف ناپسندیدہ اور سازشی ہتھکنڈوں سے ایک دوسرے کو زیر کر نے کی کوشش کی جائے ،یہ سازشی ہتھکنڈے اہل سیاست کے ساتھ جمہوریت کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوں گے ،اس لیے ایک دوسرے کو مائنس کر نے کے بجائے پلس کرتے ہوئے فراخ دلی کا ثبوت دینا چاہئے ، اس میں ہی سب کی بہتری ہے ۔
پی ڈی ایم قیادت جتنا مرضی کوشش کر لے ،پی ٹی آئی قیادت کو مائنس کر پائے گی نہ ہی اس کی مقبولیت کم کر پائے گی ،

عمران خان کوئی غیر نہیں،اس سرزمین کا ہی ایک ایسا سپوت ہے کہ جس نے اپنی سرزمین کو عزت دلائی اور زندگی کا ایک بڑا عرصہ یورپ میں گزارنے کے بعد اپنے وطن لوٹ آیا ہے اور برملا کہتا ہے کہ میرا جینا مرنا یہاں ہے ، میرا باہر کی دنیا میں کچھ بھی نہیں ، میں نے کہیں نہیں جانا ہے،اس سر زمین سے محبت کرنے والے کو نکالنے کی کوشش نہیں کر نی چاہئے ، وہ ہر بار ببانگ دہل کہتا ہے

کہ آئیں ،مرے ساتھ سیاسی میدان میں مقابلہ کریں اور عوام کو مائنس پلس کا فیصلہ کرنے کا حق دیں ، عوام کا ہی فیصلہ سب کیلئے قابل قبول ہو نا چاہئے ۔یہ کیسی سیاست اور کیسی جمہوریت ہے کہ جہاںعوام کی مرضی کے خلاف بند کمروں میں فیصلے کیے جارہے ہیں ،عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھ بھی رہے ہیں ،عوام کو اداروں کی آڑ میں زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے ،اگر نواز شریف کی نااہلی درست نہیں تھی تو عمران خان کی نااہلی بھی درست نہیں ہے ، یہ ایک ہی رویت دہرائی جارہی ہے ،

خدارا ، عوامی لیڈروںکے ساتھ با ر بار ایسا نہ کریں، اس قسم کی کارروائیوں سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے ،یہ بڑی ہی سادہ سی بات ہے کہ اس ملک کی سیاست میں اہل سیاست کو اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے اور عوام کو ہی فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟ اس مایوسی کے پھیلتے اندھیرے میں عوامی فیصلہ ہی اُمید کا چراغ ثابت ہو سکتا ہے !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں